دنیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ۔۔۔ انسانی زندگی مفلوج

  • اپ ڈیٹ:
آلودگی پھیلانے والے عناصر میں روزمرہ ضروریات زندگی کے طور پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک جانداروں کے لیے خطرہ۔ فائل فوٹو آلودگی پھیلانے والے عناصر میں روزمرہ ضروریات زندگی کے طور پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک جانداروں کے لیے خطرہ۔

آلودگی پھیلانے والے عناصر میں روزمرہ ضروریات زندگی کے طور پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کے شاپنگ بیگ (شاپر) بھی ہیں۔ شہر ہو یا گاؤں، محلہ ہو یا کوئی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی، ہر جگہ شاپر اڑتے، بکھرتے اور پانی میں تیرتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں فضائی، آبی اور ماحولیاتی آلودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی ذمہ داری کسی حد تک شہریوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان، ایران اور منگولیا کا شمار دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ پلاسٹک کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ اسے مختلف اشکال میں با آسانی ڈھالا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیاده گھریلو اشیاء پلاسٹک سے بنائی جاتی ہیں۔

محکمہ ماحولیات کے مطابق افسوس کی بات یہ ہے کہ پلاسٹک بیگ نہ تو زمین میں گل سڑ کر کوڑا کرکٹ بنتے ہیں، نہ ان کا وجود ختم ہوتا ہے اور نہ ہی زمین کا حصہ بنتے ہیں۔اس کے علاوہ پلاسٹک بیگ بنانے والی نئی فیکٹریاں بنانے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق پلاسٹک بیگ تیار کرنے کے لیے ہسپتالوں میں استعمال ہونے والی سرنجیں، گلوکوز کی بوتلیں اور شہر سے اٹھایا جانے والا پلاسٹک کا کچرا استعمال کیا جاتا ہے۔ ری سائیکل کیا جانے والا پلاسٹک 80 ڈگری سنٹی گریڈ پر بنایا جاتا ہے جو کچرے میں موجود بیکٹریا اور جراثیموں کو ختم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

مزید بتایا کہ پلاسٹک بیگ صدیوں زمین میں پڑے رہنے یا دفنانے کے باوجود بھی تحلیل نہیں ہوتے، اگر جلایا جائے تو فضائی آلودگی کا باعث بن کر کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔تقریباً ہر سال ایک لاکھ کے قریب سمندری حیات جن میں ڈولفن، کچھوے، وہیل مچھلی اور پینگوئن شامل ہیں مر جاتے ہیں کیونکہ وہ انہیں خوراک سمجھ کر کھا جاتے ہیں جو کہ بعد میں ان کی موت کا باعث بنتے ہیں۔

 قومی سطح پر پلاسٹک بیگ کے استعمال کو ایک ہی دفعہ ختم نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کے لیے حکومت اور متعلقہ اداروں کو مل کر کوئی لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر شہری اپنے گھر، گلی، محلے، ٹاؤن، شہر، تحصیل اور ضلع کی سطح پر آگاہی مہمات چلائے تو پلاسٹک بیگ کے استعمال کو کم کیا جا سکتا ہے۔اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر میں پلاسٹک بیگ کی بجائے کپڑے کا بیگ استعمال کرنے کی عادت بنانا ہو گی۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ شاپر کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے شاپر کی کوالٹی دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے، ماضی میں بازار سے اشیاء لانے کے لیے گھروں میں کپڑے کی تھیلے اور ٹوکریاں موجود ہوتی تھیں تب بیماریاں بھی کم تھیں۔

پلاسٹک بیگ کے استعمال سے نقصانات کے متعلق پبلک ہیلتھ انجیئرنگ ورکس کے کمیونٹی ڈویلمپنٹ آفیسر نعیم احمد کا کہنا ہے کہ پلاسٹک بیگ سیوریج سسٹم کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔جس کی وجہ زیادہ تر دیہات میں کوڑا کڑکٹ پھینکے کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کوڑے کو پلاسٹک بیگ میں ڈال کر گلیوں میں پھینک دیتے ہیں جو نالیوں اور پائپ لائیز کو بند کر دیتے ہیں، جس سے سیورج سسٹم بند ہو جاتا ہے اور لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 ترقی یافتہ ممالک میں بائیو ڈی گریڈ ایبل بیگ کا استعمال کیا جاتا ہے جو پاکستان میں تقریباً نظر نہیں آتا۔ اگر پاکستان کو آلودگی سے بچانا اور انسانوں کو صحت مند رکھنا ہے تو ہمیں بھی بائیو ڈی گریڈ ایبل یا کسی اور میٹریل سے تیار کردہ شاپنگ بیگ استعمال کرنا ہونگے، تاکہ فضائی اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جا سکے۔

 

install suchtv android app on google app store