ایک نئی تحقیق میں محققین نے دریافت کیا ہے کہ دکانوں میں فروخت ہونے والی پانی کی بوتل میں پہلے کے اندازے سے 10 سے 100 گنا زیادہ خوردبینی پلاسٹک ذرات ہو سکتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی ماہرین نے حال ہی کی گئی تحقیق میں بتایا کہ نینو پلاسٹک ذرات انسانی بالوں کی چوڑائی کے تقریباً 1000ویں حصے کے برابر ہوتے ہیں، اتنے چھوٹے کہ وہ نظام انہضام کی بافتوں یا پھیپھڑوں کے ذریعے گردشِ خوش میں منتقل ہو سکتے ہیں اور پورے جسم اور خلیوں میں کیمیائی توازن کو بگاڑ سکتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق دکانوں پر ملنے والی 2 معیاری سائز کی پانی کی بوتلوں میں 7 قسم کی پلاسٹکس کے اوسطاً 240,000 ذرات ہوتے ہیں جن میں سے 90 فیصد کی شناخت نینو پلاسٹک اور باقی مائیکرو پلاسٹک کے طور پر کی گئی ہے۔
امریکا میں پنسلوانیا سٹیٹ یونیورسٹی کی خاتون ڈائریکٹر شیری میسن نے کہا کہ نئے مطالعے سے شیشے یا اسٹیل کے برتنوں اور نل کے پانی پینے سے متعلق ماہرین کے پرانے مشورے کو تقویت ملتی ہے۔ یہ مشورہ پلاسٹک میں پیک کیے گئے دیگر کھانے اور مشروبات پر بھی لاگو ہوتا ہے۔