مرزاغالب کی آج 152ويں برسی منائی جا رہی ہے

مرزہ غالب کی آج 152ويں برسی منائی جا رہی ہے فایل فوٹو مرزہ غالب کی آج 152ويں برسی منائی جا رہی ہے

محبت اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو شعر کی زبان میں بیان کرنے والے اسد اللہ غالب کو دنیا سے گزرے 152 برس بیت گئے مگر ان کا کلام آج بھی زندہ ہے۔

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

مرزا اسد اللہ خان غالب ستائیس دسمبر 1797 کوآگرہ میں پیدا ہوئے اور لڑکپن سے ہی شاعری کا آغاز کیا مگر زندگی کی تلخیوں نے عمر بھر ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ رشتہ ازداواج سے منسلک ہونے کے بعد غالب دہلی منتقل ہوگئے۔

غالب نے اردو میں دیوان لکھے مگر ہمیشہ ان کے دل کے زیادہ قریب فارسی شاعری ہی رہی۔

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

زندگی کے نشیب و فراز میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا، مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر انہوں نے شاہی دربار کی ملازمت اختیار کی اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے کی ملازمت بھی کی۔

انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونکی اور اسے زندگی کی حرارت بخشی کر انسانی نفسیات کو اشعار کا لباس پہنایا۔

غالب کی شاعری میں انسان اور کائنات کے مسائل کے ساتھ محبت اورزندگی سے وابستگی شدت سےنظر آتی ہے، رندی اور تصوف کے باب بھی ہیں لیکن اپنے کلام کی شوخی پر تو وہ خود بھی مرمٹتے تھے۔

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستاے کیوں

جنگ آزادی کے بعد مرزا غالب کے مالی حالات بگڑ گئے اور پینشن کے حصول کے لیے انہوں نے دہلی سے کلکتہ تک سفر بھی کیا مگر عزت نفس کو مجروح نہیں ہونے دیا۔

پندرہ فروری 1869 کو اردو کے اس عہد ساز شاعر نے داعی اجل کو لبیک کہا اور خالق حقیقی سے جا ملے۔

install suchtv android app on google app store