یَومِ مَولُودِ کَعبَہ

13رجب یوم مولائے کائنات حضرت علی علیہ اسلام فائل فوٹو 13رجب یوم مولائے کائنات حضرت علی علیہ اسلام

امیر الموئمنینؑ، شیر خدا، نفس پیمبرؐ ، مولائے کائنات حضرت علی علیہ اسلام 13رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو خانۂ خدا میں تشریف لائے۔

وقت ولادت آپؑ کی والدہ گرامی فاطمہؑ بنت اسد کے لئے بحکم خدا دیوار کعبہ شق ہوئی،جیسے ہی آپؑ اندر تشریف لے گئیں دیوار واپس مل گئی۔ تین دن گزرنے کے بعد فاطمہؑ بنت اسد امیر الموئمنین علیؑ ابن ابی طالبؑ کو ہاتھوں پر لئے خانۂ کعبہ سے باہر آئیں تو رسولؐ خدااستقبال کیلئے تشریف لائے اور آپٔ کو گود میں لیا تو آپؑ نے آنکھیں کھول دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمادیا ’’ تو نے اپنی نگاہوں کیلئے میرا انتخاب کیا ہے اور میں نے اپنے علم کیلئے تیرا انتخاب کیا ہے ۔ حضرت علیٔ، حضر ت ابو طالب علیہ اسلام کے فرزند اور ہاشمی خاندان کے  چشم و چراغ ہیں۔ آپؑ کا سلسلہ نسب یوں ہے۔ ابو طالبٔ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی۔ حضرت کی والدہ گرامی ہاشمی خاندان کی وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ شرف حاصل ہے کہ ان کے والد بھی ہاشمی خاندان سے تھے۔

القابات:

آپؑ کا مشہور لقب کرم اللہُ وجہہُ ہے یعنی آپ کا چہرہ اللہ کا کرم ہے۔ علاوہ ازیں ابو الحسن،مرتضٰی، امیر الموئمنین،ابو السبطین،نفسِ رسولؐ،علمدار،حیدر، کرار اور آپؑ کا سب سے پسندیدہ لقب ابو تُراب ہے ۔ حضرت علی چونکہ صفاتِ الٰہیہ کا مظہر ہیں لہٰذا آپؑ کو اسد اللہ، عین اللہ،ید اللہ،ولی اللہ بھی پکارا جاتا ہے . رسولؐ اللہ کی حدیث مبارکہ ہے ’’ علی کو قیامت کے روز سات ناموں سے  پکارا جائے گا:اے صدیق،اے رہنما،اے عابد،اے ھا دی، اے مہدی ،اےجواں مرد، اے علی ۔

 ابتدائی حالات زندگی  

رسول اکرمﷺ نے خدا کے نام پر آپؑ کا نام علی رکھا، آپ کی والدہ نے حیدراور والد نے آپ کا نام اسد رکھا ۔
حضرت علی علیہ السلام تین سال کی عمر تک اپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام ﷺ کے پاس آگئے۔ کیونکہ جب آپؑ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بہت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول خدا ﷺکے چچا ابو طالبؑ کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔ رسول اللہﷺ نے اپنے دوسرے چچا عباسؓ سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک، ابو طالبؑ کے ایک ایک بچے کی کفالت اپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ہو جائے ۔ اس طرح عباسؓ نے جعفرؑ اور رسول خدا ﷺ نے علی علیہ السلام کی کفالت اپنے ذمہ لے لی۔ یوں آپؑ کی تربیت رسولؐ خدا کی آغوش میں ہوئی،  حضرت علیٔ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے مجھے علم اس طرح منتقل کیا ہے جیسے پرندہ اپنی چونچ سے اپنے بچے کو غذا کھلاتا ہے ۔
جب دس برس صحبت رسولؐ میں گزر گئے تو بحکم خدا اعلان نبوّت کر دیا گیا۔ حضرت علیٔ نے دس برس کی عمر میں رسولؐ خدا کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیا ۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد پاک ہے ’’ علیٔ پہلے مومن ہیں ‘‘ رسول ؐ کریم کے حکم پر دعوت ذوالعشیرہ کا انتظام بھی آپٔ ہی نے کیا تھا۔ اعلان نبوّت کے بعد مکہ والے رسولؐ اللہ کے مخالف ہو گئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین سال شعب ابی طالبٔ میں گزارے، اس دوران حضرت ابو طالبٔ کا یہ وطیرہ تھا کہ ہر شب رسولؐ اللہ کو ہٹا کر حضرت علیٔ ، حضرت عقیل اور حضرت جعفر میں سے کسی کو بھی آپ کی جگہ پر لٹا دیتے تھے تا کہ رسولؐ اللہ کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے، یہ ہے ایمان ابو طالبؑ ۔ حضرت علیٔ ہمیشہ سائے کی طرح رسولؐ خدا کے ساتھ رہے حتٰی کہ شب ہجرت بستر رسولؐ پرتلواروں کی چھاوں میں سو کر بتا دیا کہ علی کے ہو تے ہوئے حبیب خدا کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتی،یہ عشق رسولؑ کی ایک معمولی جھلک ہے۔

شجاعت:

آپؑ کی شجاعت کی مثالیں صرف عالم اسلام میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں آپ کی بہادری اور شجاعت کی مثالیں دی جاتی ہیں اور تمام مذاہب میں آپؑ کو بہادری و شجاعت کی علامت سمجھا جا تا ہے ۔ آپ نے بے شمار جنگیں لڑیں، جنگ بدر میں پینتیس کفّار کو تہہ تیغ کیا۔ جنگ احد میں جب سب رسولؐ کا ساتھ چھوڑ گئے تو آپ ہی نے تنِ تنہا رسالت و اسلام کا دفاع کرتے ہوئے لشکر کفّار کو پسپا کیا،اسی جنگ میں آپؑ کے لئے آسمان سے ذوالفقار نازل ہوئی۔ جنگ خندق میں عَمر ابن عبدوَد کو فی النار کر کے لشکراسلام کو فتح سے ہمکنار کیا،اس موقع پر رسولؐ خدا نے آپ کو کلِّ ایمان کی سند دی اور فرما یا ’’جنگ خندق میں علی کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے، جنگ خیبر میں مرحب و عنتر کو واصلِ جہنم کیا اور قلعہ خیبر کے در کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے اسلام کی فتح کا اعلان کیا۔ اسکے علاوہ جنگ صفّین،جمل اور نہروان میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے۔ ابن ابی الحدید کہتےہیں "علی وہ انسان ہیں جنہوں نے اپنے سے پہلے بہادر دنیا کو فراموش کرادئیے اور بعد میں آنےوالوں کے نام مٹا دئیے"۔ آپؑ نے جنگ میں کبھی بھی پہل نہیں کی،کسی لشکر کودیکھ کر کبھی مرعوب نہیں  ہوئے اور نہ ہی کبھی فرار اختیار کی ۔ جنگ خیبر میں رسولؐ اقدس کا ارشاد آج بھی تاریخ کے ماتھے پر کندہ ہے ”کل میں علم اس شخص کو دونگا جو مرد میداں ہے،کرار اور غیر فرار ہے، خدا اور رسول اس کو دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور رسول کو دوست رکھتا ہے“ روایات میں ملتا ہے کہ آپ کی ضربات ہمیشہ طاق ہوتی تھیں ۔

علم اور دینی خدمات:

آپ وارثِ علم نبیؐ ہیں۔ رسولؐ اکرم کا ارشاد ہے’’میں شہرِعلم ہوں اور علیٔ اس کا دروازہ ہیں‘‘ کائنات میں رسولؐ اللہ کے بعد تمام علوم کا منبع و محور آپؑ ہی کی ذاتِ مقّدس ہے۔ حضرت علی کا ارشاد ہے’’سلونی سلونی قبلَ انتفقدونی‘‘ پوچھ لو مجھ سے اس سے قبل کہ تم مجھے نہ پائو،میں آسمان کے راستوں کو زمین کے راستوں سے بہتر جانتا ہوں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا’’اس ذات کی قسم جس نے دانے کو توڑا اور مخلوقات کوپیدا کیا،میں اہلِ تورات سے زیادہ تورات کو اور اہلِ انجیل سے زیادہ انجیل کو سمجھتا ہوں اور اہلِ قرآن سے زیادہ قرآن کا علم رکھتا ہوں۔

تصانیف:

آپؑ کی لاتعداد تصانیف ہیں جنکا احاطہ ممکن نہیں البتہ جو اب تک آشکار ہوئی ہیں ان میں ۔ کتاب جامعہ، کتاب الجفر،صحیفۂ الفرائض،کتاب فی زکوٰۃ النعم،کتاب فی ابواب الفقہ اور ”کتاب علیؑ“ شامل ہیں جس میں اصول کافی کتاب الحجۃ کےمطابق دنیا کے ہونے والے تمام واقعات و حالات درج ہیں ۔ مذکورہ تصانیف کے علاوہ آپؑ کے اقوال و ارشادات کے خزائن بھی ہیں جنہیں مستند و معروف علماء نے جمع کرکے کتابی شکل میں شائع کیا ہے ان میں ھدایۃ العلم وغررالحکم ، دستور معالم الحکم، قلائد الحکم و فرائد الکلم ، مائۃ کلمہ، ، معمیات علیؑ،جواہرالمطالب، الارشاد اور آثار نیز سحیفۂِ علویہ کے نام  سے بارگاہ ایزدی میں کی گئی دعاؤں کا ذخیرہ شامل ہے ۔ علاوہ ازیں آپؑ کے علمی،ادبی،تاریخی اور الہٰی مضامین پر مبنی تصنیف "نہج البلاغہ" کے عنوان سے معروف  ہے جو تمام مکاتب افکار کی نظر میں گنجینۂِ علم و حکمت ہے۔ اس کی کئی شرحیں لکھی گئی ہیں لیکن چوتھی صدی عیسوی کے ممتاز عالم سید رضی کی شرح زیادہ معروف و مستعمل ہے ۔ چونکہ آپؑ کو رسولؐ اقدس کی سب سے زیادہ قربت حاصل تھی لہٰذا آپﷺ کے فرامین و احادیث بھی آپؑ سے ہی زیادہ مروی ہیں ۔ "مسندالامام علیؑ" دو جلدوں پر مشتمل ہے جس میں احادیث کی تعداد تقریباً چودہ سو پچاس ہے جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی حالیہ تحقیق میں واضح کیا ہے کہ آپؑ سے مروی احادیث کی تعداد بارہ ھزار کے لگ بھگ ہے۔

عبادت:

حضرت علیٔ ہر شب ایک ہزار رکعت نماز ادا کرتے تھے،آپٔ کا فرمان ہے’’میں نے اس امّت کے کسی بھی فرد کے عبادت کر نے سے پانچ سال قبل اللہ کی عبادت کی‘‘۔ آپؑ کا ارشاد ہے’’خدایا میں تیری عبادت اسلئے نہیں کرتا کہ مجھے جہنّم کا خوف یا جنّت کا لالچ ہے بلکہ میں تیری عبادت اسلئے کرتا ہوں کہ تو ہی عبادت کے لائق ہے‘‘۔ جنگ احد میں جب آپؑ کے پاوں میں تیر لگا تو تکلیف کی وجہ سے اسکا نکالنا مشکل تھا چنانچہ رسولؐ اللہ نے فرمایا’’ اسے تب نکالنا جب علیٔ حالت نماز میں ہوں اور ایسا ہی کیا گیا، حضرت علیٔ نے فرمایا’’دورانِ نماز مجھے اس کا بالکل احساس نہیں ہئوا۔ یہ ہے عبادتِ علی کی ایک جھلک ۔

صبر و تحمّل:

آپؑ کے صبر و تحمّل اور برداشت کا بھی سارا عالم گواہ ہے ۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اگر صبر و تحمل انسانی شکل اختیار کرلیں تو وہ علیٔ ہوں گے۔ حضرت علیٔ نہج البلاغہ کے خطبہء شقشقیہ میں ارشاد فرماتے ہیں’’ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظرآیا لہٰذا میں نے صبر ہی کیا حالانکہ آنکھوں میں خلش اور حلق میں(رنج و الم) کے پھندے لگے ہوئے تھے،میں اپنی میراث لٹتے دیکھ رہا تھا"۔
آپ کی شان میں رسولؐ اکرم کی احادیث: ٭علیٔ پہلے موئمن ہیں٭ علیٔ کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے٭ علیٔ کا ذکر عبادت ہے۔
٭جس کا میں مولا ہوں یہ علیٔ اسکے مولا ہیں٭حق علیٔ کے ساتھ ہے اور علیٔ حق کے ساتھ٭ علیٔ دین کا ستون ہیں۔
٭اپنی محفلوں کو علیٔ کے ذکر سے رونق بخشو ٭ علیٔ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسٰی سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

امیر المؤمومنینؑ کے اقوال زریں:

٭ خوف کا نتیجہ ناکامی اور شرم کانتیجہ محرومی ہے اور فرصت کی گھڑیاں (تیزرو) ابر کی طرح گزر جاتی ہیں .لہٰذا بھلائی کے ملے ہوئے موقعوں کو غنیمت جانو٭ بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے ٭ لوگوں میں بہت درماندہ وہ ہے جو اپنی عمر میں کچھ بھلائی اپنے لیے نہ حاصل کرسکے ,اور اس سے بھی زیادہ درماندہ وہ ہے جو پاکر اسے کھو دے ٭ لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مرجاؤ تو تم پر روئیں اور زند ہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں ٭  بخل ننگ و عار ہے اور بزدلی نقص و عیب ہے اورغربت مرد زیرک و دانا کی زبان کو دلائل کی قوت دکھانے سے عاجز بنا دیتی ہے اور مفلس اپنے شہرمیں رہ کر بھی غریب الوطن ہوتا ہے اور عجز ودرماندگی مصیبت ہے اور صبر شکیبائی شجاعت ہے اور دنیا سے بے تعلقی بڑی دولت ہے اور پرہیز گاری ایک بڑی سپر ہے تسلیم و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے۔
 قارئین کرام! امیرالمؤمنین علیؑ ابن ابی طالبؑ کی ذات مقدس لامتناہی جہات کی حامل ہےآپؑ کےاعمال،اوصاف،کردار،حلم و علم،
شجاعت و کرامت،سخاوت و شہامت صبر و استقلال اور فصاحت و بلاغت، غرض کوئی ایسا پہلو نہیں جس کا عقل انسانی کماحقہ ادراک کر سکے۔   

install suchtv android app on google app store