ولادتِ امام علی انّقی الھادی علیہ اسلام

امام علی انّقی الھادی علیہ اسلام فائل فوٹو امام علی انّقی الھادی علیہ اسلام

اسم گرامی،القاب و کنّیت

آپؑ سلسلہء امامت کے نویں تاجدار امام محمد تقی الجواد کے فرزند ارجمند ہیں۔ آپؑ کی والدہ گرامی کا نام سمانہ مغربیہ تھا جو سیدہ ام الفضل کے نام سے بھی مشہور تھیں۔
آپ کااسم مبارک علی اور القاب ،ھادی، نقی ۔ نجیب ،مرتضی ، ناصح ،عالم ، امین ، منتجب ، اور طیب ھیں، البتہ ھادی اور نقی آپ کے معروف ترین القاب ھیں۔
آپؑ نے عباسی خلفاء کی عداوت و ریشہ دوانیوں کے باوجود 34 برس منصب امامت پرفائزرہتےہوئے دین حق کی تبلیغ وترویج کی ضمن میں فقید المثال کارہائے نمایاں انجام دئیے ۔ دوران امامت آپ کی زندگی کے اکثر ایام سامرہ میں عباسی حکمرانوں کے زیر نگرانی گزرے ۔ آپؑ متعدد عباسی حکمرانوں کے ہم عصر تھے جن میں اہم ترین متوکل عباسی تھا۔

ولادتِ با سعادت و منصبِ امامت

آپ 5 رجب المرجب 214ہجری کو مدینہ منورہ کے ایک مقام صریا میں تشریف لائے جس کو امام موسٰی کاظم علیہ اسلام نے آباد کیا تھا- آپؑ صرف چھ برس اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ رہےکیونکہ امام محمد تقی علیہ السّلام کومعتصم بااللہ نے بغداد طلب کیا،امام تقیؑ علم الٰہی سے جانتے تھے کہ اب واپسی ممکن نہیں لہٰذا آپؑ نے اپنے فرزند امام علی انقیؑ کواپنا جانشین مقرر فرما کراسرار امامت و تبرکات  ان کے سپرد کردئیے تھے۔ امام محمد تقیؑ 9 محرم 220ہجری کو بغداد پہنچے اور 29 ذیقعد 220ہجری میں معتصم نے آپؑ کو زہرخورانی سے شہید کردیا۔ امام کی عمراس وقت 8 برس تھی، اب اس کمسنی اور خلفشار کے دور میں بار امامت امام علی النقیؑ کے کاندھوں پر آگیا۔ امام عالی مقام کی مسند امامت پر جلوہ فرمائی اوررشد و ہدایت کا چرچہ بہت جلد دور دور تک پھیل گیا اور اہلبیت کے چاہنے والے جوق در جوق آپؑ سے استفادہ کرنے کے لئے خدمت اقدس میں حاضر ہونے لگے۔ جب عباسی خلیفہ متوکل کا دور آیا اور مدینہ میں طالبان علم و ہدایت کی آمد و رفت کا سلسلہ بڑھا توعامل مدینہ عبداللہ بن حاکم کی رقابت میں مزید اضافہ ہو گیا اور اس نے پہلے تو خود حضرت کو مختلف طرح کی تکالیف پہنچائیں پھر متوکل کو آپ کے متعلق اسی طرح کی باتیں لکھیں جیسی سابق حکمرانوں کے پاس آپ کے بزرگوں کی نسبت ان کے دشمنوں کی طرف سے پہنچائی جاتی تھیں . مثلاً یہ کہ حضرت علیہ السّلام اپنے گردو پیش اسباب ُ سلطنت جمع کررہے ہیں . آپؑ کے ماننے والے اتنی تعداد میں بڑھ گئے ہیں کہ آپؑ جب چاہیں حکومت کے مقابلہ کے لیے کھڑے ہوسکتے ہیں۔
اماؑم کو اس تحریرکی بروقت اطلاع ہوگئی اور آپؑ نے اتمام حجت کے طور پر متوکل کو اپنی جانب سے ایک خط تحریرکرکے ارسال فرما جس میں حاکم مدینہ کی اپنے ساتھ ذاتی مخالفت کا تذکرہ اور اس کی غلط بیانیوں کا اظہار فرمایا تھا۔
  متوکل نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مدینہ کے حاکم کو معزول کر دیا مگر ایک فوجی دستے کو یحیٰی بن ہرثمہ کی قیادت میں بھیج کر حضرتؑ سے یہ خواہش کی کہ آپ مدینہ سے درالسلطنت سامرہ  تشریف لا کر کچھ دن قیام فرمائیں اور پھر واپس مدینہ تشریف لے جائیں، یہ ایک حربہ تھا تاکہ آپؑ اورآپؑ کے اھل بیتؑ وہاں پر رہیں اور لوگوں کارجحان آپ کی طرف سے ہٹ جائے ۔ امام علیہ السّلام اس خواہش کی حقیقت سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے یہ نیاز مندانہ دعوت تشریف آوری حقیقت میں جلا وطنی کا حکم ہے۔ آپؑ جانتے تھے کہ انکار کی صورت میں کوئی دوسرا حربہ استعمال کیا جائے گا چنانچہ آپؑ با دلِ ناخواستہ 243ہجری میں اپنے اجداد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جانب سامرہ عازم سفر ہوئے ۔ مدینے سے رخصت ہو نا آپؑ کے دل پر نہایت شاق تھا اور روانگی کے وقت آپ کےتاثرات اتنے شدید تھے جس سے احباب و اصحاب میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔
 جب امام علیہ السّلام سامرہ پہنچے اور متوکل کو اس کی اطلاع دی گئی تواس خبیث نے بجائے آپؑ کا استقبال کرنے کے اپنے کارندوں کوحکم دیا کہ حضرت کو(خاف الصعالیک) میں اتارا جائےیعنی” بھیک مانگنے والے گداگروں کی سرائے میں“ یہ جگہ شہر سے دور ویرانے میں ایک کھنڈر تھا- جہاں امام علیہ السّلام کو فروکش ہونے پر مجبور کیا گیا-  یہ امام عالی مقام کے ساتھ انتہائی تحقیرآمیز سلوک تھا جو خلافت عباسیہ کے بغض و عناد کا بین ثبوت ہے۔ بعد ازاں آپؑ کو اس مکان میں منتقل کیا گیا جو آپؑ کی سکونت کے لئے معین کیا گیا تھا اور آپؑ اپنی شہادت تک سامرہ میں ہی مقیم رہے۔ اماؑم نے محبان اہلبیتؑ اور طالبان رشد و ہدایت سے مربوط رہنے کے لئے ایک مستحکم نظام وکالت قائم کیا جس کے تحت تمام عرب و عجم میں آپؑ کے وکلاء تعینات تھے یہ وکلا ایک طرف تو خمس اکٹھا کرکے امام کے لئے بھجواتے تھے اور دوسری طرف سے لوگوں کی کلامی اور فقہی پیچیدگیاں اور مسائل حل کرنے میں تعمیری کردار ادا کرتے تھے۔

علمی خدمات

یہ وہ زمانہ تھا کہ مختلف روشوں اور مختلف فرقے اسلامی معاشرے کو گمراہ کرنے میں مصروف تھے اس کے تدارک کے لئے آپؑ نے ایک رسالہ تحریر کیا جس میں آپؑ نے قرآن کی بنیادی حیثیت پر زور دیا اور قرآن ہی کو روایات کی کسوٹی اور صحیح اور غیر صحیح کی تشخیص کا معیار قرار دیا۔ آپ صرف ان روایات کی تصدیق فرمایا کرتے تھے جو قرآن و سنت کی موافق ہوتی تھیں
عقائد، تفسیر، فقہ اور اخلاق کے متعدد موضوعات پر آپؑ سے کئی احادیث منقول ہیں۔ آپ سے منقول احادیث کا زیادہ حصہ اہم کلامی موضوعات پر مشتمل ہے، من جملہ ان موضوعات میں تشبیہ و تنبیہ اور جبر و اختیار وغیرہ شامل ہیں ۔ شیخ طوسی کے مطابق امامؑ کے شاگردوں اور آپؑ سے روایت کرنے والے اصحاب کی تعداد 185 تک ہے. امامؑ کے بعض معروف و مشہور اصحاب کے نام حسب ذیل ہیں
عبدالعظیم حسنی :"عبدالعظیم" ایک زاہد و پارسا، صاحب حریت، عالم و فقیہ‌ اور اماؑم کے نزدیک قابل اعتماد اور موثق شخصیات میں سے ہیں۔
عثمان بن سعید:عثمان بن سعید نے صرف گیارہ سال کی عمر میں امام ہادیؑ کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور بہت تھوڑے عرصے میں اس قدر ترقی کی کہ امامؑ نے انہیں اپنا "ثقہ" اور "امین" قرار دیا۔
ایوب بن نوح :ایوب بن نوح امین اور قابل اعتماد انسان تھے اور عبادت اور تقوی میں اعلی رتبے کے مالک تھے یہاں تک کہ علمائے رجال انہیں اللہ کے صالح بندوں کے زمرے میں قرار دیتے تھے. وہ امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کے وکیل تھے اور انھوں نے امام ہادیؑ سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں ۔
 آپؑ نے  زیارت جامعۂ کبیرہ کی صورت میں بھی ایک گراںمایہ تحفہ اپنے چاہنے والوں کے لئے ہدیہ کیا ہے جو حقیقت میں امامت سے متعلق شیعہ عقائد کے مسائل اور امام شناسی کا ایک مکمل نمونہ ہے۔ در اصل یہ زیارت نامہ شیعہ عقائد، ائمۂؑ کی منزلت اور ان کی نسبت ان کے پیروکاروں کے فرائض پر مشتمل ہےچنانچہ امام ہادیؑ نے فرمایا ہے کہ زیارت جامعہ پڑھنے سے پہلے زائر 100 مرتبہ تکبیر کہے تاکہ ائمۂؑ کے سلسلے میں غلو سے دوچار نہ ہو۔

اقوال و احادیث

٭ دوسروں کا مذاق اڑانا بیوقوفوں کا شیوہ اور جاہلوں کا پیشہ ہے۔  
٭جس پر تمہارا تسلط نہیں اس پر غصہ ہونا عاجزی ہے اور جس پر تسلط ہے اس پر غصہ ہونا پستی ہے۔
٭مصیبت صبر كرنے والے كے لئے اکہری (ایك ہی) اور بے صبری کرنے والے كےلئے دوہری ہے ۔
٭جس کا نفس پست ہو جائے اس کے شر سے اپنے کو محفوظ مت سمجھو۔
٭جب بھی معاشرے میں عدل و انصاف ظلم و ستم پر غلبہ کرے، کسی پر بدگمانی کرنا حرام ہے مگر یہ کہ وہ اس کے بارے میں یقین تک پہنچے، اور جب بھی ظلم و ستم عدل و انصاف پر غالب آجائے تو کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی کے بارے میں حسن ظن رکھے مگر یہ کہ اس کے بارے میں یقین حاصل کرے

معجزات و کرامات

٭ابوہاشم جعفری کابیان ہے کہ ایک دن میں نے امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں اپنی تنگ دستی کی شکایت کی آپ نے فرمایا "بڑی معمولی بات ہے تمہاری تکلیف دور ہو جائے گی" اس کے بعد آپ نے رمل یعنی ریت کی ایک مٹھی زمین سے اٹھا کر میرے دامن میں ڈال دی اور فرمایا اسے غور سے دیکھو اور اسے فروخت کرکے کام نکالو ابوہاشم کہتے ہیں کہ خدا کی قسم جب میں نے اسے دیکھا تو وہ بہترین سونا تھا، میں نے اسے بازار لے جاکرفروخت کردیا (مناقب ابن شہرآشوب)
٭حمد بن عیسٰی الکاتب کابیان ہے کہ میں نے ایک شب خواب میں دیکھا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہیں اور میں ان کی خدمت میں حاضر ہوں، حضرت نے میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور اپنے دست مبارک سے ایک مٹھی خرمہ اس طشت سے عطا فرمایا جو آپ کے سامنے رکھا ہوا تھا میں نے انہیں گنا تو وہ پچیس تھے اس خواب کو ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ مجھے معلوم ہوا کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام سامرہ سے تشریف لائے ہیں میں ان کی زیارت کے لیے حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ ان کے سامنے ایک طشت رکھا ہے جس میں خرمے ہیں میں نے حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو سلام کیا حضرت نے جواب سلام دینے کے بعد ایک مٹھی خرمہ مجھے عطا فرمایا ، میں نے ان خرموں کو شمار کیا تو وہ پچیس تھے میں نے عرض کی مولا کیا کچھ خرمے اور مل سکتے ہیں۔ جواب میں فرمایا! اگر خواب میں تمہیں رسولؐ خدانے اس سے زیادہ دیا ہوتا تو میں بھی اضافہ کردیتا (دمعہ ساکبہ)
٭ایک دن امام علی نقی علیہ السلام اورعلی بن حصیب نامی شخص دونوں ساتھ ہی راستہ چل رہے تھے علی بن حصیب آپ سے چندقدم آگے بڑھ کربولے آپ بھی قدم بڑھاکرجلدآجائیے حضرت نے فرمایاکہ اے ابن حصیب ” تمہیں پہلے جاناہے“ تم جاؤ اس واقعہ کے چاریوم بعدابن حصیب فوت ہوگئے" ۔
٭ یحی بن زکریاکابیان ہے کہ میں نے امام علی نقی علیہ السلام کولکھاکہ میری بیوی حاملہ ہے آپ دعافرمائیں کہ لڑکاپیداہوآپ نے جواب میں تحریرفرمایا، کہ بعض لڑکیاں لڑکوں سے بہترہوتی ہیں، چنانچہ لڑکی پیداہوئی ۔
٭ایک روایت میں ہے کہ امام ہادی علیہ السلام متوکل کے محل کے ایک گوشے میں نماز بجا لارہے تھے تو مخالفین میں سے ایک شخص آپؑ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور گستاخی کرتے ہوئےبولا " دکھاوے کے یہ اعمال کب تک " امام علیہ السلام نے تیزرفتاری سے نماز کو مکمل کرکے سلام دیا اور اس شخص سے مخاطب ہوکر فرمایا "اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں ہلاک فرما دے"۔ چنانچہ وہ شخص اسی وقت زمین پر گر پڑا اور مر گیا۔ راوی کہتا ہے کہ اس واقعے کی خبر پورے قصر میں پھیل گئی۔
٭محمد بن فَرَج کہتے ہیں، امام ہادی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا " جب بھی کوئی سوال پوچھنا چاہو، اسے مکتوب کرو اور اپنا مکتوب مصلے کے نیچے رکھو اور کچھ صبر کرو اسے باہر نکالو اور دیکھ لو۔ محمد بن فَرَج کہتے ہیں: میں نے امامؑ کی ہدایت کے مطابق عمل کیا اور اپنے سوالات کا لکھا ہوا جواب وصول کیا۔
٭ ایک روایت کے مطابق جب متوکّل نے امام علی نقی علیہ السلام اور دوسروں پر اپنا رُعب و دہشت قائم کرنے کے لیے حکم دیا کہ ۹۰ ہزار مسلح فوجی گھڑ سواروں کا مظاہرہ کیا جائے،امامؑ متوکّل کی نیت سے بخوبی واقف تھے، آپؑ نے متوکّل کا غرور توڑنے کے لیے فرمایا ’’کیا تم میرا لشکر بھی دیکھنا چاہو گے؟‘‘ متوکّل جس نے اس وقت تک امامؑ کے لشکر کے متعلق کچھ نہیں سنا تھا، تعجب سے بولا، جی ہاں! امامؑ کی دعا سے زمین و آسمان کے درمیان مشرق اور مغرب میں اسلحہ سے لیس ملائکہء الٰہی کا لشکر ظاہر ہوا جسے دیکھ کر متوکّل وحشت زدہ ہو کر بیہوش ہو گیا۔
آپؑ کا روضہء اقدس حرمین العسکری سامرہ میں مرجع خاص وعام ہے۔

install suchtv android app on google app store