سید الشہداء شباب اہل الجنّۃ حضرت امام حُسین عَلیہِ اسلام

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
ظہور پر نور حضرت امام حسین علیہ اسلام 3شعبان4 ہجری کو مدینہ منوّرہ میں تولد پذیر ہوئے فائل فوٹو ظہور پر نور حضرت امام حسین علیہ اسلام 3شعبان4 ہجری کو مدینہ منوّرہ میں تولد پذیر ہوئے

حضرت امام حسین علیہ اسلام کا نام نا صرف عرب و عجم بلکہ تمام دنیا میں نہایت عزت و احترام و تکریم کے ساتھ پہچانا جاتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کا یہ نواسہ، زہرؑا و علیؑ کا جگر گوشہ تمام مذاہب، مکاتیب افکار اور اقوام عالم میں محبت و اخوت، امن وآشتی، صبر و تحمل، اخلاص و مروت اور شجاعت و حکمت نیز عدل و انصاف اور حق و صداقت کا نمونہِ عمل ہے۔

ظہور پر نور حضرت امام حسین علیہ اسلام 3شعبان4 ہجری کو مدینہ منوّرہ میں تولد پذیر ہوئے۔ آپ اپنے بڑے بھائی امام حسؑن سے چھ ماہ چھوٹے تھے۔ دنیا میں آنے کے بعد آپکے نانا رسول اکرمؐ نے آغوش میں لے کر اپنی زبان مبارک چوسائی اور یہی لعاب دہنِ مصطفیٰ آپ کی پہلی غذا بنا، آپکا اسم مبارک حکم خدا سے رسالتماٰبؐ نے حسیؑن رکھا ۔ آپ کی ولادت پر جبرئیلؑ نے رسولؐ خدا کو مبارکباد و ہدیۃِ تہنیت کے بعد بحکم خدا آپؑ کی شہادت سے بھی آگاہ کردیا تھا۔ جس پر نبیؐ اور بعد ازاں حضرت علیؑ و حضرت فاطمۃ ازہراسلام اللہ علیہا نے بھی گریہ کیا۔ آپکی ولادت پر جب حضرت جبرئیلؑ مبارکباد کیلئے زمین پر تشریف لا رہے تھے تو انہوں نے ایک ویران مقام پر ایک فرشتے کو دیکھا جو گریہ و زاری کر رہا تھا، جبرئیلؑ نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرا نام فطرس ہے اور میں پہلے آسمان پر ستّر ہزار فرشتوں کی قیادت کرتا تھا، پس مرضیِ معبود میں ایک پل کی دیر کی تھی جسکی وجہ سے میرے بال و پر جل گئے ہیں اور یہاں تنہائی میں پڑا ہوں۔ اسنے پوچھا اے روح الامین آپ کہاں جا رپے ہیں، جبرئیلؑ نے کہا کہ رسول اللہﷺکے وہاں ایک فرزند کی ولادت ہوئی ہے جس کا نام حسیؑن ہے، میں خدا کی طرف سے ہدیہۃِ تہنیت پہنچانے جا رہا ہوں۔ فطرس نے التجا کی کہ مجھے بھی لے چلو، مجھے یقین ہے کہ مجھے اسی در سے شفاء ملے گی چنانچہ حضرت جبرئیلؑ اسے اپنے ہمراہ نبیِ کریم کی خدمت میں لے آئے اور آپؐ سے واقعہ بیان کیا۔ رسول خدا نے فرمایا کہ اسے حسینؑ کے قدموں سے مَس کر دو، جیسے ہی وہ حسیؑن کے قدموں سے متمسک ہوا خدا نے اسے پھر سے وہی بال و پر عطاء فرمادئیے۔

آپؑ کی کنّیت ابوعبداللہ اورمشہور القابات سیّد ،سیّد اشہداء،سبطِ اصغر ہیں۔

ابتدائی حالات زندگی

آپؑ کی تربیت آغوش رسالت میں ہوئی اور آپؑ اپنے نانا کا لعاب دہن چوس چوس کر پروان چڑھے ۔ رسولؐ اقدس آپ سے بہت محبت کرتے تھے، کبھی آپؑ کو کندھے پر بٹھا تے کبھی آپؑ کے لئیے ناقہ بنتے تو کبھی سجدوں کو طول دیتے اور کبھی خُطبہ ساقط کرکے آپؑ کو گود میں اٹھا لیتے۔ ایک روز رسولؐ اقدس تشریف فرما تھے،آپؐ کے ایک زانو پر جناب ابراہیمؑ اور دوسرے پہ امام حسیؑن بیٹھے ہوئے تھے کہ جبرئیل امین نازل ہوئے اور فرمایا''دونوں میں سے ایک کو اپنے پاس رکھیں" ۔ آپؐ نے ابراہیمؑ کو حسیؑن پر قربان کردیا اور یوں تین دن بعد حضرت ابراہیم اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ رسولؐ اکرم امام حسیؑن کو اپنے سینہ پر لٹاتے اور انکا منہ چوم کر بارگاہ خداوندی میں دعا کرتے"اے میرے پالنے والے میں اسے بے حد عزیز رکھتا ہوں، تو بھی اسے محبوب رکھ"۔

ایک مرتبہ رسولؐ خدا جارہے تھے راستے میں جنابِ فاطمہؑ کا گھر آیا جہاں سے امام حسیؑن کے رونے کی آواز آ رہی تھی آپؐ تشریف لائے اور فرمایا" کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حسیؑن کے رونے سے مجھے کس قدر اذیت و تکلیف ہوتی ہے" ۔

آپؑ کی شان میں رسولؐ کریم کی احادیث 

٭حسیؑن مجھ سے ہے اور میں حسؑین سے، پروردگار حسیؑن کے دوست کو دوست رکھتا ہے۔
٭جو سردارِجوانانِ جنّت کو دیکھنا چاہتاہے وہ حسیؑن کی طرف نظر کرے۔
٭حسیؑن میرا پارہِ جگر ہے، جو اسے اور اسکی اولاد کو دوست رکھے اس کے لئیے طوبیٰ ہے اس کے قاتل کے لیئے جہنّم ۔
٭حسیؑن تم سیّد ابن سیّد، برادرِ سیّد، امام ابن امام، برادرِامام، حجّت ابن حجّت اور برادرِ حجّت ہو۔
٭میرے تمام گھرانے میں سب سے زیادہ محبوب حسؑن و حسیؑن ہیں۔
٭جو حسؑن و حسیؑن ، ان کے باپ اور ان کی مادر گرامی سے محبت کرے گا وہ جنّت میں میرے ساتھ ہو گا۔
٭حسؑن و حسیؑن دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
آپؑ نہایت پاک طینت اور عابد و زاہد تھے،آپ شب و روز عبادت میں مشغول رہتے،آپؑ نے سکونت مدینہ کے دوران پچّیس حج پا پیادہ انجام دئیے ۔ آپؑ نہایت سخی،شفیق اور ضرورت مندوں کے حاجت روا تھے۔ اسامہ ابن زید صحابیِ رسولؐ علیل تھے آپؑ انکی عیادت کیلئے تشریف لے گئے دیکھا کہ وہ بہت رنجیدہ ہیں،پوچھا کیا ہؤا،اسامہ نے جواب
دیافرزند رسولؐ ساٹھ ہزار دینار کا مقروض ہوں۔ آپؑ نے فرمایا کہ پیشان نہ ہو یہ میں ادا کرونگا ۔ ایک روایت یہ ہے کہ شہادت کے وقت آپؑ کی پشت پر مال برداری کے گھٹے دیکھے گئے ۔ امام زین العابدیؑن اسکی وضاحت یہ فرمائی کہ آپؑ اپنی پشت پر دوران شب غلّے اور اشرفیوں کے انبار لاد کر بیواؤں اور یتیموں کے گھر پہنچایا کر تے تھے ۔
امامؑ عالی مقام کےاعمال و اقدامات آیات قرآنی کی روشنی میں ۔
مطالبہِ بیعت اور آپؑ کا جواب ۔ خبر دار ظالموں کی طرف میلان نہ پیدا ہو نے پائے کہ تم جہمم کے حقدار ہو جاؤ(سورۃ ہود) ۔
مدینہ سے روانگی ۔ جو شخص اپنے گھر سے راہِ خدا میں ہجرت کرتا ہے وہ مر بھی جاتا ہے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہو تا ہے( سورۃ نساء) ۔
مکّہ کی طرف روانگی ۔ جو خانہِ کعبہ میں داخل ہو جائے وہ محفوظ ہو جاتا ہے(سورۃ آل عمران) ۔
کربلا کی جانب روانگی ۔ اے پیغمبرؐ! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ رہو گے تو وہ لوگ بہر حال نکلیں گے جن کا مقدر شہادت ہے ۔
دین الٰہی کی بقاء کیلئے جہاد ۔ جن لوگوں سے زبر دستی جنگ کی جاتی ہے انہیں اللہ کی طرف سے جہاد کی اجازت دی گئی ہے ۔(سورۃ حج)
کر بلا میں بھوک و پیاس کا امتحان ۔ اللہ تمہارا ایک نہر کے ذریعے امتحان لے گا(سورۃ بقرہ)
جہاد فی سبیل اللہ ۔ اے نفس مطمئنّہ اپنے رب کی طرف پلٹ آ، تو ہم سے راضی ہےہم تجھ سے راضی ہیں(سورۃ فجر)
آپؑ کی شان مین حضرت عمرؓ کا ارشاد ۔
ایک مرتبہ امام حسؑن ، امام حسیؑن اورعبداللہ ابن عمرؓ آپس میں محو گفتگو تھےکہ امام حسیؑن نےعبداللہ سے کہا " تم ہمارے غلام زادے ہو، اتنا بڑھ چڑھ کے کیا باتیں کر رہے ہو ۔ عبداللہ نے اپنے بابا سے اسکا تذکرہ کیا۔ حضرت عمرؓ نےجب یہ سنا تو کہا "یہ بات ان سے لکھوا کے لے آؤ اور میرے کفن میں رکھ دینا کیونکہ محمدؐ و آل محمدؐ کی غلامی بخشش کا ذریعہ ہے" ۔

عبداللہ ابن عمرؓ کا اعتراف 

عبد اللہ ابن عمرؓ خانہِ کعبہ کے نزدیک چند لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہؤے تھے کہ سامنے سے امام حسیؑن آتے ہوئے نظر آئے ۔ عبداللہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ"یہ شخص (امام حسیؑن) اہل آسمان کے نزدیک تمام اہل زمین سے زیادہ محبوب ہے۔

ابنِ عباسؓ کا واقعہ 
ایک روز امام حسیؑن گھوڑے پرسوار ہو رہے تھے اچانک ابن عباسؓ کی نظر پڑی، آپؓ نے دوڑ کر امام حسیؑن کی رکاب تھام لی اور آپؑ کو سوار کرایا ۔ یہ دیکھ کر ایک شخص نے کہا کہ اے ابن عباسؓ تم رشتے اور عمر میں حسیؑن سے بڑے ہو پھر تم نے ایسا کیوں کیا ۔ ابن عباسؓ نے غصّے میں جواب دیا "اے کمبخت تو کیا جانے انکا مرتبہ کیا ہے، یہ فرزند رسولؐ ہیں انہیں کے صدقہ سے میں نعمتوں سے بہرہ ور ہوں۔

حضرت ابو ھریرہؓ کا قول 

ایک مرتبہ امام حسیؑن اور ابو ھریرہ ایک جنازے میں ساتھ جا رہے تھے کہ اثناء راہ میں امام حسیؑن کچھ دیر کے لئے رک گئے تو ابو ھریرہ نے فوراً اپنا رومال نکال کر امام حسیؑن کے قدموں اور جوتیوں کی گرد جھاڑنا شروع کردی، یہ دیکھ کے امام حسیؑن نے فرمایا، ابو ھریرہ کیا کرتے ہو! ابو ھریرہ نے کہا"مولا مجھے منع نہ کیجئے، آپ اسی قابل ہیں کہ میں آپکے قدموں کی خاک صاف کروں ۔ میرا یقین ہے کہ اگر لوگوں کو آپکے فضائل اور تکریم معلوم ہو جائے تو وہ آپکو کاندھوں پر اٹھائے پھریں" ۔

امام حسیؑن کی عقیدت میں غیر مسلم اکابرین کے ارشادات

نیلسن منڈیلا: میری کامیابی کا راز کربلا اور امام حسیؑن ہیں ۔
مہاتما گاندھی: اگر میرے پاس امام حسیؑن جیسے بہتّر لوگ موجود ہوں تو میں چوبیس گھنٹوں میں ہندوستان آزاد کرا لوں ۔
چارلس ڈکسن: امام حسیؑن کی جنگ اقتدارومال ومتاع کیلئے نہیں تھی، ان کی قربانی اسلام کیلئے تھی ورنہ وہ خواتین اور بچوں کو لیکے نہ جاتے ۔
رابندر ناتھ ٹیگور: سچ و انصاف کوزندہ رکھنے کیلئے فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جا سکتی ہے، جیسے امام حسیؑن نے کربلا میں دی ۔ بلاشبہ امام حسیؑن انسانیت کے لیڈر ہیں ۔
ڈاکٹر ایڈورڈ کیسلر: شوشل جسٹس حاصل کرنے کیلئے امام حسیؑن ایک رول ماڈل ہیں ۔
لبنان کے عیسائی مصنف انتونی بارا ۔ میں نہیں مانتا کہ امام حسیؑن صرف شیعوں یا صرف مسلمانوں کے امام ہیں، میرا یہ ماننا ہے کہ وہ تمام عالم کے امام ہیں۔

آپؑ قرآن ناطق تھے اور آپؑ کا ہر عمل قرآنی آیات کی تفسیر اور دین اسلام کی حقیقی تبلیغ تھا۔ آپ نے دین حق کی بقاء اور اصلاح امّت محمّدی کے لئے صبر و استقلال، عظم و حوصلے اور قربانی کی وہ لازوال مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک بنی نوع انسان کے لئے مشعل راہ ہے۔ خانوادہِ نبوّت کا یہ ماہ منوّر و گلشن زہرؑا کا گُلِ تر اسلام کی آبیاری کے لئے اپنا اور اپنے اقرباء کا خون جگر دے کر 10محرم 61 ہجری کو یزیدی لشکر کے ہاتھوں بےدردی اور ظلم و ستم سے شہید کر دیا گیا۔

install suchtv android app on google app store