گلگت بلتستان کا مستقبل کیا ہوگا۔۔۔؟

موجودہ حالات پر نظرثانی کی جاۓ تو معلوم ہوتا کہ گلگت بلتستان ایک ہلچل اور غیرمتوازن حالات سے گزر رہا ہے۔یہ بے آئینی خطہ 71 سالوں سے اپنی آئینی حقوق اور شناخت کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن بدقسمتی سے آج تک آئینی حقوق اور شناخت سے محروم ہے۔

اس خطےکی نئی تاریخ کا آغاز یکم نومبر 1948 سے ہوتا ہے جس میں اس خطے کے بہادر،غیرت مند،امن پسند اور جرات مند باسیوں نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے بل بوتے پے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی اور اپنا الحاق مملکت پاکستان سے کر دیا۔شاید مملکت پاکستان سے یہ الحاق غلط نہ تھا وہ اس لیے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور وہ نظریہ ہے''اسلامی نظریہ''۔گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ یہ الحاق دو باتوں کی بنیاد پر تھا۔ پہلاچونکہ گلگت بلتستان میں رہنے والوں لوگوں میں تقریباً اکثریت اسلام کے ماننے والےتھے اور اسلامی معاشرے کی قیامکو برقرار رکھنے، فروغ دینے اور تحفظ کی خاطر اس بنیاد پر پاکستان سے الحاق کیا یعنی گلگت بلتستان بھی اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔دوسرا اس الحاق کا اہم پہلو اس خطہ میں رہنے والے لوگوں کی اپنی ایک الگ پہچان،شناخت،تہذیب و تمدن اورثقافت تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس خطے کے لیے ایک ایسے سیٹ اپ کی ضرورت تھی جو اس خطے کی سیاسی،سماجی اور معاشرتی زندگی کے ہر اس پہلو کی حفاظت کرۓ جو اس خطے کو دوسرۓ خطوں سے امتیاز کرتا ہے یعنی ایک ایسی سیاسی اور آئینی حیثیت جو آئین پاکستان کی پاسداری کرتے ہوۓ ان چیزوں کا تحفظ کرۓ۔لیکن بدقسمتی سے 72سالوں کی وفاداری کا صلہ آج اس خطے کو مسلہ کشمیر اور متنازعہ حیثیت سےدیا جاتا ہے۔لیکن اس الحاق کے بعد کا سفر نہ تو گلگت بلتستان کو اپنی شناخت دے سکا اور نہ ہی اس خطے کو آئینی حقوق دلا سکا۔جب بھی اس بے آئین خطے کے حقوق کی بات آتی ہے اسلام آباد کے تخت نشین صاحبان متنازعہ قرار دیتے ہیں اور مسلہ کشمیر کے لیے متاثرہ کن قرار دے کر ٹال مٹول کر دیتے ہیں۔بنیادی حقوق ہو یا پھر آئینی حقوق یا پھر عبوری حکومت کا درجہ یہ خطہ صاحب اقتدار کو متنازعہ لگتا ہے لیکن جب اس کے پر نوچنے ہو تو اس کو پاکستان کا نام دیا جاتا ہے،قدرتی وسائل غضب کرنا ہو تو پاکستان کا نام دیا جاتا ہے،کے ٹو کی بات آتی ہے تو نام پاکستان کا جوڈ دیا جاتا ہے لیکن بات جب حقوق کی آتی ہے تو پھر ان کو متنازعہ علاقہ لگتا ہے اور مسلہ کشمیر لگتا ہے۔لیکن آخر کب تک یہی چلتا رہے گا؟ہمیں اس لڑائی کو کب تک لڑنا پڑۓ گا؟شاید ان سوالوں کا جواب ہمیں تب ملنگے جب اس خطے کے نوکر شاہی سیاستدان ہوش میں آئنگے،جب اسلام آباد میں بیٹھے تخت نشینوں کو ہوش میں لایا جاۓ گا،جب ہم مل کر برسرے پیکار ہو کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرینگے۔لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم لوگ اپنے اباواجدا کی مانند اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے نہیں ہوگیے،ان کی طرح ظلم و جبر کو للکارتے ہوۓ اپنے حقوق کو حاصل نہیں کرتے۔

ہاں البتہ اگر اس خطے کو متنازعہ رکھنا پاکستان کے مفاد ہے تو پھر گلگت بلتستان کو بھی وہی طرز حکومت کا سیٹ اپ دیا جاۓ جو کشمیر کے لیے ہے یا پھر وہ تمام مراعات فراہم کیے جاۓ جو United Nationsنے اپنے چارٹر میں ایک متنازعہ علاقے کے لیے مقرر کیے ہیں جس میں 35کے قریب چیزوں پر سبسڈی مقرر کی ہے،سٹیٹ سبجکٹ رول کی بحالی وغیرہ شامل ہیں۔یہ وہ تمام مطالبات ہیں جو اس خطے کے باسی مطالبہ کرتے ہیں۔اگر آئینی حقوق دینے سے مسلہ کشمیر متاثر ہوتا ہے تو پھر اس خطے کی متنازعہ حیثیت تو نہ چھینے۔آخر کیوں اس خطے کے ساتھ ساس بہو کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔

لیکن ستم ظریفی اس بات کی ہے کہ جب بھی اس خطے کے امن پسند شہری اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں یا پھر جدوجہد کرتے ہیں تو پھر اسلام آباد کے ایوانوں سے غداری کے فتوے جاری ہوتے ہیں۔فورتھ شیڈول جیسے کالے قانون کے تحت اس خطے کے معصوم عوام کو ہراساں کیا جاتا ہے اور عبرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر کسی اور طریقے سے ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے جو نہ صرف اس خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے بلکہ اس خطے کے عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ الجھاۓ رکھنے کے طریقے ہیں تاکہ پھر سے حقوق کے لیے آواز نہ اٹھے جو اس خطے کے آنے والے مستقبل کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

اگر یہی صورت حال باقی رہے تو گلگت بلتسان کا آنے والا مستقبل تاریکی میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔جس میں پسماندگی،جہالت،گروہ بندیاں اور بھی کہی سیاسی،معاشرتی اور سماجی برائیوں کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا ہے۔جس طرح اسلام آباد کے کرسی نشین اس خطے کو سی پیک کا جھانسہ دیکر بیوقوف بنا رہے اس میں گلگت بلتستان کے لیے پسماندگی اور بے کسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ہے۔اگر اس خطے پر سی پیک سے رونما ہونے والے متاثرہ کن نتائج پر غور کیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ جس کو گلگت بلتستان کے لیے خوشحالی کا منصوبہ قرار دیا جاتا ہے اس خطے کی بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔یہ منصوبہ اس خطے کی آب و ہوا کو تو متاثر کرۓ گا ہی لیکن اس کے ساتھ جو برائیاں اور خرابیاں اس منصوبے کے زریعے پیدا ہونے جارہے ہیں جس میں اس خطے کے قدرتی وساٖئل کو خام مال کی شکل میں یہاں سے لیکر جائنگے جس کا اس خطے کو زرہ برابر فائدہ نہیں ہوگا۔ہمارے قدرتی وساٖئل کا فائدہ اس خطے کو فائدہ دینے کے بجاۓ دوسروں کو دے گا۔جس سے اس خطے کے قدرتی وسائل ڈپلیٹ ہونے کی طرف جائنگے اور ہم اور بھی پستی اور پسماندہ ہوتے چلے جائنگے۔دوسرا سب سے بڑا مسلہ جو اس منصوبے کے زریعے پیش آے گا وہ ہے اب تک سٹیٹ سبجیکٹ رول کو بحال نہ کرنا اس بات کی طرف مائل کر دیتا ہے کہ مستقبل میں ہماری زمینوں پر باہر سے آۓ ہوۓ لوگ حکومت کرینگے۔ہماری زمینیں اوروں کے ہاتھوں میں چلی جائنگی اور ہم دیکھتے ہی رہ جائنگے۔اگر جلد سٹیٹ سبجیکٹ رول کو بحال نہ کیا گیا تو چند سالوں میں رجحان یہ ہوگا کہ باہر سے آۓ ہوے لوگوں کی تعداد ان گنتھ ہوجاے گی جو اس علاقے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔جس مقصد کے لیے مودی نے کشمیر سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا ہے کہی مملکت پاکستان کا پلان بھی تو ویسا نہیں جو سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی میں تاخیر کر رہی ہے؟تیسری اہم چیز جوں جوں باہر سے آنے والوں کی تعداد مٖیں اضافہ ہوتا جارہا ہے اتنا ہے اس خطے کی تہذیب و تمدن اور ثقافت خطرہ میں پڑتا جارہا ہے۔گلگت بلتستان کے ثقافت کے نام پر مختلف قسم کے بے حیائی کے پرگرامات منعقد کیے جاتے ہیں جو اس خطے کے امن کو خراب کرنے کی سازش ہیں۔آجکل جو بڑی سازش اس خطے کے خلاف کی جاتی ہے وہ ہے اس خطے کے نظام تعلیم کو برباد کرنا۔یونیورسٹی اور کالجوں میں فری تعلیم کو ختم کے اس خطے کےغریب عوام سے مفت تعلیم بھی چھین رہے ہیں۔جو کہ آنے والے مستبقل میں گلگت بلتستان جہالت کی آگ جل سکتا ہے۔اس کےساتھ ساتھ جرائم میں بھی بدرجہ اضافہ ہوگا جس میں سمگلنگ،نشہ آور چیزوں کی کھلے کھلم استعمال اور فروخت،ہیومن ٹریفکنگ،street crimes لوٹ مار،ڈکیتیاں،ٹریفک حادثات میں اضافہ اور شامل ہے جن کی جھلکیاں آج کسی نہ کسی صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔

اب ہمارا آنے والا مستقنل ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم اپنے آنے والے مستقنل کو روشنی سے منور دیکھنا چاہتے ہیں یا پھر جہالت،پسماندگی،غربت یا پھر تاریکی میں ڈوبا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاۓ،اپنے حقوق کے لیے صفیوں میں شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنے بنیادی حقوق کو نوکر شاہی لوگوں سے چھین لیے،یب وقت آگیا ہے ہمارے نوکر شاہی سیاستدانوں کو نیند سے جگاۓ۔اپنے حقوق کے لیے شعور اور بیداری کی ضرورت ہے،خوابِ خفلت سے اٹھ کھڑۓ ہوجاۓ اور اپنے حقوق کی دفاع اور حصول کے لیے آواز بلند کرے۔کیونکہ عزیم اور ترقی یافتہ قومیں وہی ہوتی ہے جو ظلم اور جبر کو للکارتے ہوۓ اپنے حقوق کو حاصل کرۓ،اور اپنی تقدیر کو ہر روز بدلتا دیکھے۔

پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی تاریخ کی راہوں میں کہیں کھو نہ جاۓ۔اگر اب بھی ہم اپنے مستقبل کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہوۓ تو ہمارا مستقبل چراغ تلے اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

install suchtv android app on google app store