مطالعہ پاکستان اور تاریخ گلگت بلتستان

عبدالحسین آزاد ‏ عبدالحسین آزاد ‏

کسی بھی ملک وقوم ،خطہ اور ریاست کی شناخت اس کی تاریخ ہو اکرتی ہے۔

اگر کسی قوم کو شکست سے دو چار کرنامقصود ہو یا پھر اس کو ٹکڑوں میں بانٹنا ہوتو سب سے پہلے اس کی تاریخ پر حملہ کیا جاتا ہے اور نوجوان نسل کو اس کی تاریخ سے نابلد اور ناآشنا کیا جاتا ہے یاپھر اس قوم کی تاریخ میں اس قدر الجھنیں ڈال دی جاتی ہیں کہ اس قوم کی نئی نسل اپنی ہی قوم کی تاریخ کے مطالعے کے بعد خود کو اس قوم کا فرد کہلانے سے کتراتی ہے۔ یعنی تاریخ کے باب کو اس قدر تاریک بنا دیا جاتا ہے اور من گھڑت واقعات کا ذکر کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی شخص اس تاریخ سے اظہار نفرت کا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسی لئے تاریخ کی حفاظت اور بقاءکسی بھی قوم کے وجود کیلئے اشد ضروری ہے۔ تاریخ کووقت کے مطابق ترتیب دینا اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں تاریخ اور ثقافت کو محفوظ رکھنا اور نئی نسل تک منتقل کرنا ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے۔ مطالعہ پاکستان میں قیام پاکستان سے قبل ان دنوں کی تاریخ بھی رقم کی گئی ہے، جب پاکستان اور دو قومی نظرئیہ کا وجود بھی نہیں تھا۔ یعنی اس میں کسی قسم کی شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ تاریخ پاکستان مکمل اور جامع لکھی گئی ہے ۔تاریخ پاکستان در اصل پنجاب ،سندھ ،سرحد ،بلوچستان اور کشمیر کی تاریخ کے مجموعے کانام ہے۔ تاریخ پاکستان میں چاروں صوبوں کے لوگوں کاکردار قیام پاکستان کیلئے رقم ہے، ساتھ ہی ان تمام افراد کی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کا بھی ذکر تاریخ پاکستان میں پڑھنے کو ملتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان میں دام درم سخن اپنا حصہ ڈالا ہے۔ مطالعہ پاکستان اور تاریخ پاکستان میں ملک کے چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر کا بھی ذکر موجود ہے اور 1971ءتک مغربی بنگال کا بھی ذکر پڑھنے کو ملتا ہےاس لئے تاریخ پاکستان سے (پنجاب ،سندھ ،سرحد ،بلوچستان اور آزاد کشمیر سمیت بنگلہ دیش) ہر پڑھالکھا شخص جو چاہیے نوجوان ہو یا طالبعلم یا پھر عمر رسیدہ سب آگاہ ہیں مگر وہی ایک ایسا خطہ بھی ہے پاکستان کے دامن میں جس کی ایک الگ منفرد اور خوبصورت تاریخ ہے۔ ایسا خطہ ہے جو اپنے دامن میں بہت ہی خوشگوار تاریخ سمیت تاریخی مقامات رکھتا ہے مگر افسوس صد افسوس!اسی خطے کو تاریخ پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا اور مطالعہ پاکستان سے اس خطے کی تاریخ کو محروم کیا گیا جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ قارئین کرام آپ کے تو علم میں ہی نہیں ہوگا کہ میں کونسے خطے کی بات کررہا ہوں اور آپ حیران ہونگے اور آپ کے آذہان مبارکہ میں یہ سوالا ت بھی ابھر رہے ہونگے کہ کیاواقعی پاکستان کاایک ایسا خوبصورت خطہ بھی ہے جس کی تاریخ مطالعہ پاکستان میں شامل نہیں۔ قارئین کرام زیادہ حیرت کی بات نہیں ،آپ سمیت بہت سے پاکستانی اس خطے کے بارے میں مکمل لاعلم ہیں۔حال ہی میں راقم کا واسطہ ایک شخص سے پڑا رسمی علیک سلیک بڑھ کر تعارف کی حد تک پہنچ گئی جب میں نے اپنا تعارف کرایا کہ میں گلگت بلتستان سے ہوں اور کراچی میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے سلسلے میں قیام پذیر ہوں تو محترم نے نہایت ہی سنجیدگی کیساتھ پوچھا کہ یہ تو چائینہ کا حصہ ہے نا؟ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ کو کراچی آنے کیلئے ویزا لینا پڑتا ہے؟؟ اس شخص کی کم علمی پر حیرت نہیں ہوئی کیونکہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ شخص پڑھا لکھا ہے کہ نہیں مگر شکل سے پڑھا لکھا لگتا تھا ۔مگر میری حیرت کی انتہا اس وقت آسمان کو چھو رہی تھی جب یونیورسٹی میں کسی دوست نے سی پیک پروجیکٹ پر پریزنٹیشن پیش کی اور پریزنٹیشن کے اختتام پر سوالات کا سلسلہ ہوا کرتا ہے سوالات کا موقعہ غنیمت جان کر راقم نے سوال کیا سی پیک کا انڈور (دروازہ )پاکستان کے کون سے خطے میں ہے بس سوال کرنا تھا کہ پریزنٹیشن دینے والا یک دم ہکا بکا رہ گیا مجھے شدید حیرت ہوئی اس وقت جب وہ طالبعلم جو سی پیک پر اپنی پریزنٹیشن دے رہاتھا اور اس کو یہ تک معلوم نہیں کہ سی پیک پاکستان کے کونسے خطے سے چائینہ کیساتھ لنک کرتا ہے۔ یونیورسٹی کا طالبعلم اورا پنے ہی ملک کی تاریخ سے لا علمی؟؟ نے مجھے ایک طرف ورطہ حیرت میں مبتلاء کردیا تو دوسری طرف میں سوچنے پر مجبور ہوا کہ غلطی تو اس یونیورسٹی کے طالبعلم کی بھی نہیں جو گلگت بلتستان سے ناآشناء ہے۔ غلطی تو تاریخ پاکستان کو ترتیب دینے والے ان مفکروں کی ہے جنہوں نے اس خطے کو تاریخ پاکستان سے دور رکھا۔ بغیر کسی وجہ کے ۔بات صرف یہی تک محدود نہیں بلکہ خود گلگت بلتستان کی نئی نسل تاریخ گلگت بلتستان سے نابلد اور ناآشنا ءہے ۔گلگت بلتستان کے نوجوان جتنی سندھ ،سرحد ،بلوچستان اور پنجاب کی تاریخ کے متعلق علم رکھتے ہیں ۔اتنی آگاہی گلگت بلتستان کی تاریخ سے متعلق نہیں رکھتے ۔اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ کلاس اول سے اعلیٰ تعلیم تک گلگت بلتستان میں بھی تاریخ پاکستان پڑھایا جا تا ہے اور مطالعہ پاکستان لازمی مضامین میں شامل ہے ۔اس بات پر اعتراض نہیں کہ گلگت بلتستان میں مطالعہ پاکستان کیوں پڑھا جاتا ہے ۔گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے ،اس لئے کوئی بھی شخص تاریخ پاکستان کے متعلق دو رائے رکھنے کا حق نہیں رکھتا ۔گلگت بلتستان اور پاکستان ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں۔مگر یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو اپنی تاریخ سے دور کیو ں رکھا گیا ۔کیوں ؟؟گلگت بلتستان کی تاریخ کو مطالعہ پاکستان میں کیوںشامل نہیں کیا گیا ۔جو علاقہ اپنی اندر ایک جامع تاریخ رکھتا ہو،کیوں اس علاقے کی تاریخ سے لوگوں کو ناآشنا ءرکھا گیا ۔کیوں اس خطے کی تاریخ کو مطالعہ پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا۔ جس خطے کی تاریخ حضرت سلیمان ؑ کی دور حکومت سے ملتی ہے ۔حضرت سلیمان ؑ کے دور حکومت میں آپ ؑکے حکم عدولی کرنے والے جنوں کو سزاءکے طور پرکوہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم کے پہاڑوں میں پھینکا جاتا تھا ۔برصغیر پاک وہند میں جب برطانیہ کی حکمرانی تھی اور چین میں بھی برطانیہ کا راج نافذ تھا ۔اس وقت روس دنیا کی سپر پاور تھا اور روس برصغیر میں اپنی حکمرانی کیلئے پینگیں پھیلا رہا تھا ۔روس نے برصغیر میں برطانوی راجہ کے خا تمے کیلئے اور اپنی حکمرانی کیلئے اس خطے میں قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔کیونکہ گلگت بلتستان میں قبضہ کے بعد روس چین سمیت برصغیر سے برطانوی راجہ کا خاتمہ کرسکتا تھا ۔گلگت بلتستان جغرفیائی لحاظ سے چین ،انڈیا سمیت کئی ممالک کیلئے تجارتی مرکز تھا ۔روس کے اس خطرے کے پیش نظر برطانیہ نے 1869ءمیں گلگت بلتستان میں پہلی برطانوی فوجی چھاونی قائم کی اور روس کے قدموں کو روکا ۔برطانیہ نے اپنی دوسری بڑی فوجی چھاونی گلگت بونجی کے مقام پر 1879ءمیں قائم کیا ۔جو یکم نومبر 1947ءتک قائم تھی ،جب جنگ آزادی گلگت بلتستان لڑی گئی ،تو اس چھاونی میں مقامی مجاہدوںاور سکھ وڈوگرہ فوج کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ شدید لڑائی کے بعد اس فوجی چھاونی کا صفایا کیا گیا ۔یکم نومبر 1947ءکویوم آزادی گلگت بلتستان کا اعلان کیاگیا۔

یوں تو گلگت بلتستان کی تاریخ بہت وسیع او ر جامع ہے ۔گلگت بلتستان کی تاریخ کو اس طرح کی تحریر میں بیان کرنا ،سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہوگا ۔راقم کامقصد تاریخ گلگت بلتستان کو بیان کرنا نہیں بلکہ مطالعہ پاکستان میں تاریخ گلگت بلتستان کو شامل نہ کرنے کے نقصانات اور اس علاقے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے اور ساتھ ہی نوجوانوں کو تاریخ گلگت بلتستان سے آشنائی دلانے کی ایک کاوش ہے ۔جیسا کہ گزشتہ روز کے کالم میں ذکر کرچکا ہوں کہ گلگت بلتستان کی تاریخ سے خود گلگت بلتستان کا نوجوان بھی نا آشنا ءہے ۔وہ اس لئے کہ یکم نومبر 1947ءکو گلگت بلتستان آزاد ہوا اور 15دن گلگت بلتستان ایک آزاد ریاست کے طور پر رہا ۔یکم نومبر سے 16نومبر 1947ءتک گلگت میں ایک آزاد ریاست کا وجود قائم ہوچکا تھا اور ریاست کی منزل پاکستان تھی ۔گلگت بلتستان کا پاکستان کیساتھ الحاق کسی لالچ وطمع کا نتیجہ نہیں اورنہ ہی کسی جور جبر کا نتیجہ ہے ،بلکہ یہ تو اسلام اور مسلمانوں کی محبت کا جذبہ تھا، جس کے نتیجہ میں ہمارے آباءواجداد نے بغیر کسی لالچ کے گلگت بلتستان، 28ہزار مربع میل کے ایک وسیع وعریض خطے کو قائد اعظم کے سامنے پیش کیا گیا ۔ پاکستان سے گلگت بلتستان کا الحاق اس نوزائدہ مملکت کی مضبوطی اور استحکام اور اسلام اور مسلمانوں دوستی اور ہمدردی کانتیجہ تھا۔16نومبر 1947ءکوریاست گلگت بلتستان کا کنٹرول براہ راست وفاق کے ہاتھوں میں آیا اور وفاق کی طرف سے ایک پولیٹیکل ایجنٹ گلگت بلتستان بھیجا گیا ،جس کا نام سردار عالم تھا اور وہ عہدے کے لحاظ سے نائب تحصیلدار تھے ۔پاکستان کی محبت میں اس آدنیٰ سے پولیٹیکل ایجنٹ کو بھی گلگت بلتستان کی قوم نے قبول کیا ، ورنہ اس کی حیثیت گلگت بلتستان کے جنگ آزادی کے ہیروز اور کمانڈروں کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی ۔اب یہاں سے گلگت بلتستان کے نوجوان نسل میں بڑا اختلاف پایا جاتاہے ۔ وہ اس لئے کہ آدھے سے زیادہ نوجوان الحاق پاکستان کی تاریخ سے روگردانی کرتے ہیں۔ان کا نظریہ ہے کہ قائدین جنگ آزادی اور ہمارے آبا واجداد نے پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کیا ۔راقم اس حولے سے خاصی تنقید کا بھی سامنا کرچکا ہوں،یہ کہنے پر کہ گلگت بلتستان کے آباءواجداد نے 16نومبر 1947ءکو پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور گلگت بلتستا ن کو پاکستان میں شامل کیا ،اکثر نوجوانوں کا خیال ہے کہ ہمارے آبا ءو اجداد نے الحاق نہیں کیا پاکستان کیساتھ۔ وہ نوجوان جوا لحاق پاکستان پر یقین نہیں رکھتے وہ راقم سے دریافت کرتے ہیں۔ اگر آپ دعویٰ کررہے ہیںکہ ہمارے آباءواجداد اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کیساتھ ہیروز نے الحاق کیا ہے تو پھر کوئی ایسی دستاویز تو ہوگی ،جس میں الحاق کا حلف نامہ یا معاہدہ کی کاپی کچھ بھی ثبوت کے طور پر فراہم کرو ۔اکثر دوست یہی سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔اس وقت میںسوال کے جواب میں صرف ایک ہی سوال پوچھتا ہوں ۔وہ یہ ،کہ چلو ایک لمحے کیلئے آپ کی بات تسلیم کربھی لیتے ہیں کہ گلگت بلتستان کا پاکستان سے کسی بھی قسم کا کوئی بھی اتحاد نہیں ہوا تھا ۔تو آپ مجھے بتائے کہ یہ پاکستان نے کب اور کس تاریخ کو کون سے سال گلگت بلتستان پر اپنی فوج بھیج کر چڑھائی کی اور ریاست گلگت بلتستان کی حکومت شکست کو دیکر گلگت بلتستان پر قبضہ کرلیا ۔اگر گلگت بلتستان اور پاکستان کے درمیان کسی قسم کی کوئی لڑائی تاریخ میں ملتی ہے تو تب ہم یہ کہہ بھی سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان پر پاکستان نے بہ زور طاقت قبضہ کرلیا ہے ۔مگر تاریخ میں کہیں پر بھی کوئی اشارہ تک نہیں کہ جس میں لکھا گیا ہو کہ گلگت بلتستان پر پاکستان نے قبضہ کیلئے جنگ کی اور ظالمانہ قبضہ کرلیا ۔لیکن تاریخ میں یہ ضرور لکھا ہوا ہے کہ ،گلگت بلتستان کے آباءاجداد نے جنگ لڑی اور سکھ فوجیوں کو ماربھگا یا ۔تو پھر اس کادوسرا مطلب یہ ہوا کہ گلگت بلتستان کے مجاہدین اور عوام نے اپنی مرضی سے بغیر کسی پریشر کے پاکستان کے الحاق کیا ۔اب اگر ان تمام ثبوتوں کے بعداگر کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرے تو پھر اس کیساتھ بحث ومباحثہ کرنا بیوقوفی کے علاوہ کچھ نہیں ۔گلگت بلتستان کے نوجوانوں میںپائے جانے والے اس طرح کے ابہام کی وجہ بھی گلگت بلتستان کی تاریخ کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت پوشیدہ رکھنا اور شہریوں کو اس سے ناآشنا رکھناہے ۔اگر تاریخ پاکستان اور مطالعہ پاکستان میں تاریخ گلگت بلتستان کو بھی شامل کیا جاتا تو آج ایسے حالات کا سامنا کرنا نہیں پڑتا ۔ظلم پہ ظلم یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا اپنا کوئی نصا ب بھی نہیں ۔کم از کم گلگت بلتستان میںہائیر سیکنڈری سطح کی تعلیم میںگلگت بلتستان کی تاریخ کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جائے ،تاکہ مقامی طلباءاپنی تاریخ سے آشنا ہوں ۔ گلگت بلتستان کئی اہم مواقعوں پر پاکستان کی توقیر کا باعث بنا ہے ۔جیسے پاکستان کا شمار حالیہ رپوٹس کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے سیاحتی ملک کے طور پر ہوا ہے جوکہ اعزاز کی بات ہے ۔اسی طرح پاکستان دنیا کاوہ واحد ملک ہے جہاں دنیا کی 20میں سے 5بڑے پہاڑ واقع ہیں، اور ان پہاڑوں میں کے ٹو دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ اور نانگا پربت دنیا کا تیسرا بلند ترین پہاڑ بھی واقع ہیں ۔جو کہ پاکستان کی پہچان ہیں اور یہ پہاڑ گلگت بلتستان میں واقع ہیں ۔گلگت بلتستان میں دنیا کا دوسرا بڑا صاف پانی کا ذخیرہ منجمد شکل میں مو جو د ہے اور 8بڑے گلیشرز بھی پائے جاتے ہیں ۔دیوسائی دنیا کا بلند ترین مقام جس سے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے اس خطے میں واقع ہے جو کہ قرہ ارض کا دوسرا بلند ترین خطہ ہے ۔سندھ اور پنجاب کو سیراب کرنے والا دریاے سندھ بھی اسی خطے سے نکلتا ہے ۔ان تما م تاریخی حقائق کو طالب علموں تک اس وقت تک نہیں پہنچاسکتے جب تک تاریخ گلگت بلتستان کو مطالعہ پاکستان میں شامل نہ کیا جائے ۔چین پاکستان تعلقات مطالعہ پاکستان میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان شدہ ہیں ۔مگرافسوس وہی وہ خطہ جو پاکستان اور چین کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے ،اس کو تاریخ سے دور رکھنا ،کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ۔سی پیک سمیت پاکستان چین کی پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی اگر قائم ہے تو وہ گلگت بلتستان کی ہی وجہ سے کیونکہ ،کوئی بھی ملک مستقل طور پر کسی ملک کا دوست نہیں رہتا۔یعنی دو ممالک کی دوستی کے پیچھے ان کے مفادات ہوتے ہیں ۔ چین اور پاکستا ن کے مفادات ایک دوسرے سے وابسطہ ہیں اور دوستی برقرار ہے تو وہ گلگت بلتستان کی بدولت ہیں،کیونکہ اگر پاکستان کے کسی اور خطے سے چین کی سرحد نہیں ملتی ہے ۔گلگت بلتستان جغرافائی لحاظ سے دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی رکھنے والے ممالک کے سنگم پر واقع ہے ۔گلگت بلتستان دفاعی ،تجارتی ،صنعتی اور قدرتی معدنیات کے حوالے سے بہت ہی اہمیت کا حامل خطہ ہے ۔ گلگت بلتستان پاکستان کا وہ واحد خطہ ہے ۔جس کی سرحدیں 5ممالک سے ملتی ہیں،ان میں چین ،بھارت ،افغانستان اور قازقستان شامل ہیں ۔اگر مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو جنوبی ایشائی ممالک کیلئے تجارت کا مرکز گلگت بلتستان بن سکتا ہے قازقستان کے راستے روس تک تجارت کی جاسکتی ہے اور کھرمنگ بارڈر کے راستے انڈیا سے بھی تجارت کیلئے سر حد کھولی جاسکتی ہے اور پھر افغانستان سے بھی تجارتی روابط آسانی کیساتھ قائم کیے جاسکتے ہیں۔

مطالعہ پاکستان میں تاریخ گلگت بلتستان کو شامل نہ کرنے کے پیچھے بہت سے عناصر اور مصلحتیں کار فرما ہیں ۔ان مصلحتوں میں سے ایک مصلحت گلگت بلتستان کو کشمیر کاز کا حصہ قرار دینا بھی ہے ۔اگر گلگت بلتستان کی تاریخ کو مطالعہ پاکستان میں شامل کیا جاتا تو تاریخ گلگت بلتستان اسٹیٹ کے حقائق سے پوری دنیا واقف ہوجاتی اور خطہ گلگت بلتستان کو کشمیر کاز کا حصہ بنانے کی سوچی سمجھی سازش ناکام ہوکر رہ جاتی ۔یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ کو مطالعہ پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا ۔اس سے نہ صرف نقصان گلگت بلتستانیوں کا ہوا بلکہ یہ ریاست پاکستان کیلئے بھی نیک شگون نہیں ۔گلگت بلتستان کو کشمیر کاز کا حصہ بنانے کیلئے اس خطے کی جغرافیہ کیساتھ بھی کھیلو اڑ کیا گیا ۔خطہ گلگت بلتستان ایک وقت میں کوہستان سے لے کر شندوراور چترال تک پھیلاہواتھا۔مگرا س کو محدود کیا گیا ۔اس خطے کی جغرافیائی ساخت پر حملہ پہلی بار 1950ء میں اس وقت کیا گیا ۔جب گلگت بلتستان کے انتظامی معاملات کو منسٹری آف کشمیر آفیئر زکے سپرد کیا گیا ۔1950ء سے پہلے کوہستان گلگت بلتستان کا حصہ تھا ۔جس کو ایک منظم اور سوچی سمجھی سازش کے تحت خیبر پختونخوا کے حوالہ کیا گیا۔آج جو گلگت بلتستان کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عناصر بڑے کشمیر کے خیر خواہ بن کر نعرے لگارہے ہیں کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے سے کشمیر کاز کو نقصان ہوگا اور عالمی سطح پر مسلہ کشمیر کمزور پڑ ھ جائے گا ،ان عقل کے اندھوں کو اس وقت خیال کیوں نہیں آیاجب کوہستان اور شندور سے چترال تک گلگت بلتستان کے حصوں کی بند ربانٹ کی گئی اور غیر قانون طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کے حوالہ کیا گیا ۔اس وقت کہاں تھے ۔یہ کشمیر کے نام پر اپنی سیاست چمکانے والے عناصر۔ کہاں تھے ریاستی ادارے جو جب بھی گلگت بلتستان والے آئینی حقوق کیلئے آواز اٹھا تے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ خطہ کشمیر کا حصہ ہے اس لئے مکمل آئینی حقوق نہیں دے سکتے۔جب مکمل آئینی حقوق نہیں دے سکتے تو پھر آپ کو یہ اختیار کس نے دیا تھا کہ سن 1950ء میں گلگت بلتستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور اس کی سرزمین کو دیگر صوبوں کے حوالہ کرنے کا۔یہی وہ تاریخی حقائق ہیں جن کو چھوپانے کیلئے گلگت بلتستان کی تاریخ کو مطالعہ پاکستان سے دور رکھا گیا ۔تاکہ گلگت بلتستانیوں سمیت پوری دنیا اس تاریخ سے نابلد رہے ۔ہوا بھی کچھ ایسے ہی اور آج کے اکثر گلگت بلتستا ن کے نادان دوست اور جوان ،جو خود تو تاریخ کے مطالعے سے کوسوں دور ہیں یہی جواز فراہم کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو حقوق دینے کا اختیار وفاق اور پاکستان کے پاس نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے حقوق کا فیصلہ مسلہ کشمیر کے حل کیساتھ طے ہو گا،کیونکہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے اور اس کا فیصلہ اقوام متحدہ نے کرنا ہے ۔مجھے ان جوانوں کی عقلوں پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ۔وہ اس لئے کہ نوجوان نسل کسی بھی قوم کی تاریخ کی حفاظت کی ضامن ہوتی ہے مگر یہاں گنگا الٹی چلتی ہے بلکہ چلائی گئی ہے اور ہمارے نوجوانوں کو اپنی تاریخی حقائق سے ناآشنا رکھا گیا ہے ۔مگر وہ عناصر کبھی کامیاب نہیں ہونگے ،جنہوں نے ان تاریخی حقائق کو چھوپانے کی ناکام کوشش کی ۔کیونکہ تاریخ وہ واحد شے ہے جس کو مٹایا نہیں جاسکتا ہے اور نہ ہی چھو پایا جاسکتا ہے ۔گلگت بلتستان کے نوجوان اب اپنی تاریخ کی کھوج لگانے میں لگے ہوئے ہیں ۔وہ وقت دور نہیں جب گلگت بلتستان کے نوجوان اپنی تاریخی حیثیت کو سمجھ کر اپنے مطالبات کے حصول کیلئے سیسیہ پلائی ہوئی دیوار بن کر سینہ تان کر وقت کے ستمگروں کے سامنے کھڑے ہونگے ۔گلگت بلتستان کی اہمیت کا اندازہ آہستہ آہستہ بیوروکریسی اور قانون فافذکرنے والے اداروں کو بھی ہونے لگا ہے۔ مگر اب بھی کچھ عناصر سیاسی مفادات کی خاطر گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اس لئے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت میں گلگت بلتستان کے حقوق کے تعین کے جائزے کیلئے بنائی گئی کمیٹی،جس کی سربراہی پاکستان کے مشہور بیورکریٹ سرتاج عزیز صاحب فرمارہے تھے ۔اس کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر لا نے کے بجائے اس رپورٹ کو دفنا یا گیا ۔کیونکہ اس روپورٹ میں کمیٹی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حقوق دینا وقت کی ضرورت ہے اور ملک کے مفاد میں ہے ۔اس خطے کو کشمیر کاز کے ساتھ منسلک کرکے متنازعہ بنانا ملک کیلئے سخت نقصاندہ ہے اور تاریخ حقائق کے مطابق یہ خطہ کشمیر کا حصہ نہیں رہا ۔اس لئے اس خطے کو حقوق دینے میں ہی پاکستان کی بھلائی ہے ،اب اس رپورٹ کے بعد بھی کچھ مفاد پرست سیاست دان ملکی مفاد پر اپنے ذاتی مفادات اور پاکستان دشمن قوموں کا بلا چاہتے ہیں تو پھر ہم کچھ کہنے سے قاصر ہیں بصورت دیگر سرتاج عزیز کی سربراہی میں بنائی جانی والی کمیٹی کی رپورٹ کو نظر انداز کرنا اور اس رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانا ہی ہمارے حکمرانوں کی بد یانیتی اورذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دینے کامنہ بولتا ثبوت ہے ۔چلئے ایک لمحے کیلئے گلگت بلتستا ن کو کشمیر کا حصہ فرض کرتے ہیں ،جوکہ ہمارے سیاستدان اور ریاستی ادارے چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے ۔تو میں سوال پوچھنا چاہونگا ،پاکستان کے مفاد پرست سیاستدانوں اور بیوروکریسی سے اور ریاستی اداروں سے کہ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق متنازعہ خطوں میں آرٹیکل 35A کے تحت کوئی بھی غیر علاقائی شخص متنازعہ خطوں میں زمین خرید نہیں سکتا اور نہ ہی مکان بنا کر مستقل رہائش اختیا رکرسکتا ہے ۔جب مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش ہوئی اور باہر سے سکھوں کو کشمیر میں لاکر بسانا شروع کیا تو پاکستان نے شدید احتجاج کیا ،جو کہ پاکستان کاحق تھا احتجاج کرنا ۔یہی سوال ہم ریاستی اداروں سے کر رہے ہیں ،کہ آ پ اس بات کو تسلیم کرتے ہو کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے اور متنازعہ خطہ ہے ،اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے ۔کوئی مجھے یہ بتادے کہ پھر اس متنازعہ گلگت بلتستان کی زمینوں کو خالصہ سرکار قراردے کر اپنے من پسند لوگوں کو فروخت کیوں کی گئی ؟ گلگت بلتستان میں پاکستان کے دیگر صوبوں کے لوگ زمینی کیوں خرید رہے ہیں اور حکومت پاکستان اس کی سربراہی کیوں کررہی ہے ؟کس قانون کے تحت 1950میں کوہستان اور چترال کو خیبر پختونخوا کے حوالہ کیا گیا ؟ایسا کرنا تو اقوام متحدہ کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔جب یہ علاقہ متنازعہ ہے تو گلگت بلتستان کی زمینوں کی بندر بانٹ کیوں کی جارہی ہے۔ متنازعہ خطے کی زمین کو کس قانون کے تحت پاکستان نے 1962ء میں800مربع میٹر زمین چین کے حوالہ کی ؟کس قانون کے تحت گلگت بلتستان کے تاریخی مقامات کو یو ایس اے ایمبیسی کو سونپ دیا گیااور کس قانون کے تحت انٹرنیشنل این جی اوز یہاں کے تاریخ مقامات پر قابض ہیں۔ متنازعہ خطوں میں اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق 37ء اشیاء پر سب سٹی دی جاتی ہے اور ٹیکس فری ہوتا ہے تو پھر کیا یہ تمام سہولیات گلگت بلتستانیوں کو حاصل ہیں ؟اگر یہ تمام سہولیات نہیں دی جاتی ہیں تو کیوں کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ ہے ۔اگر متنازعہ تسلیم کیا جاتا ہے تو پھر سہولیات کیوں نہیں دی جاتی ؟ یہی وہ سوالات ہیں اور تاریخی حقائق ہیں جن کو چھوپانے کیلئے اس خطے کی تاریخ کو مطالعہ پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا ہے ۔اگرتاریخ گلگت بلتستان بھی نصاب پاکستان کا حصہ ہوتی تو آج گلگت بلتستان متنازعہ ہوتا اور نہ ہی حقوق سے محروم۔ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تاریخ گلگت بلتستان کو بھی نصاب میں باضابطہ شامل کیا جائے اور مطالعہ پاکستان میں اس علاقے کی تاریخ کو شامل کیا جائے اور گلگت بلتستانیوں کی امنگوں کے مطابق اس خطے کو شناخت دی جائے ۔نیا پاکستان کے نئے حکمران جو پاکستان کی بھلائی کے دعویدار ہیں اگر سچ میں بھلائی چاہتے ہیں تو اس خطے کی محرمیوں کو دور کیا جائے اور آئینی حقوق دیا جائے۔

install suchtv android app on google app store