ریاست مدینہ اور ریاست پاکستان

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
مختار حُسین وزیر مختار حُسین وزیر

ریاست مدینہ ایک ارتقائی ریاست ہے ۔ اپنی تشکیل سے حضور اکرم ﷺ کی رحلت تک یہ ریاست بہت سے مراحل سے گزری ہے ان مراحل کو سمجھنا بہت ضروری ہے تب جا کے ہم ریاست مدینہ کو سمجھ سکتے ہیں ریاست مدینہ کا پہلا مرحلہ تبلیغی مرحلہ تھا۔

جب حضور اکرم ﷺ خانہ کعبہ میں حج کے موقع پر باہر سے آنے والے حجاج کرام سے ملتے تھے اور ان تک اپنی دعوت پہنچاتے تھے۔ ان میں مدینہ سے آنے والے حجاج کرام بھی شامل تھے دو سال کے اس تبلیغ کا فائدہ یہ ہوا کہ اہم قبائل کے سرداروں نے اسلام قبول کیا اور آپ ﷺ کے ہا تھ پربعیت کی اور واپس مدینہ جا کر آپ ﷺ کے پیغا م کو دوسروں تک پہنچایا یہاں تک کہ مدینہ کی اکثریت مسلمان ہو گئے مکہ میں کفار مکہ نے آپ ﷺ کا جینا محال کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا اور آپ ﷺ نے پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی ریاست مدینہ کا دوسرا مرحلہ مدینہ میں شروع ہو تا ہے ۔ آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ کا چارہ گروہ سے واسطہ ہو ا۔ ایک اہل ایمان جو دل سے آپ ﷺ پر ایمان لے آئے تھے جنہیں تا ریخ میں انصار کے نام سے یا دکیا جاتا ہے۔

دوسرے مشرکین ، تیسری منافقین جو معاشرتی دباؤ کی وجہ سے بظاہر اسلام قبول کئے تھے ۔ اور چوتھا یہودی قبائل جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے ۔ آپ ﷺ نے ان تمام گروہوں کو اعتماد میں لے کر ریاست مدینہ، ایک مستحکم ریاست کی بنیا د رکھی دی۔ یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا جیسے میثاق مدینہ کے نام سے تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔اس میں شہریوں کے حقوق کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ آپ ﷺ نے مسلمان، یہودی سب کو سیاسی اور سماجی حیثیت سے ایک امت قرار دیا۔

تیسرا مرحلہ مہاجرین کی آباد کاری تھی ۔ جس کے لیے حضور اکر م ﷺ نے مہاجرین کو انصار کا بھائی قرار دیا۔ انصار نے حضور اکرم ﷺ کی اس بات پر لبیک کہتے ہوئے اپنی مال ، جائیداد میں سے آدھا حصہ اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا۔ حتیٰ کے جن انصار کی دو بیویاں تھی انہوں نے ایک بیوی کو مہاجر بھائی کے عقد میں کر دیے دیا۔ اس طرح یہ مسئلہ بھی احسن طریقے سے حل ہو گیا ۔ پانچواں مرحلہ دفاع کا تھا کیونکہ اس ریاست کو داخلی اور خارجی سطح پر مسائل نے گھیر لیا ۔ ہجرت کے دوسرے سال ہی غزوہ بدر ہوا اور مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنا پڑا۔

داخلی طور پر یہودی مکہ کے کفار سے مل کر ریاست مدینہ کو عدم استحکام میں مبتلا کرنا چاہتے تھے یہودیوں نے اس معاہدے کا پارہ پارہ کیا جیسے میثاق مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ریاست کو استحکام کرنے کے لیے حضوراکرم ﷺ نے بیرونی طاقتوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا چھٹا مرحلہ سماجی تبدیلی کا ہے جو کہ پہلے سے درجہ بہ درجہ تبدیلی کی طرف جا رہا تھا۔ کیونکہ آپ و ساتھ ساتھ تبلیغ کر رہے تھے ۔ اس طرح یہاں پر معاشرتی اصطلاحات بہتری کی طرح گامزن تھے۔ قدیم روایات جو انسانی اقدار کے خلاف تھے ان کا خاتمہ کیا جیسے سود کا نظام، غلامی، چونکہ سود کا نظام ایک اسلامی ریاست کے لیے بہت خطر ناک چیز ہے

۔ جس کا قرآن کریم مین شدید الفاظ میں مذمت کیا ہوا ہے آپ ﷺ نے ختم کر دیا ۔ مدینے کی ریاست میں انصاف کا بو بالا تھا جس کا اندازہ آپ ﷺ کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ ﷺ کے پاس ایک خاتون کو چوری کے جرم میں پیش کیا تو آ پ ﷺ نے جب سزا سنائی تو کسی نے کہا کہ حضور ﷺ یہ ایک اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتی ہے آپ ﷺ سزا کم کریں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے کی قومیں ایسے ہی تباہ ہو ئی ہیں کہ وہاں وڈیرا قا نون رائج تھا۔

امیر کےلیے کوئی اور قانون تھا اور غریب کے لیے کو ئی قانون تھا۔ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاظمہ بھی یہ چوری کرتی تو میں تب بھی اس کے ہاتھ کاٹ دیتا حضرت فاطمہ سے آپﷺ کو سب سے زیادہ محبت تھی جس کا اندازہ آپ ﷺ کیاس بات سے لگا سکتے ہیں کہ فاطمہ میرے جگر کا ایک ٹکڑا ہے۔

پاکستان بھی اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ لیکن بدقسمتی سے اس ملک کو قائداعظم اور لیاقت علی خاں کے بعد کو ئی قابل اور لائق لیدر کبھی نصیب نہیں ہوا۔ہر حکمران نے اس ملک کو اپنے توفیقات کے حساب سے لوٹا ۔ لیکن یہ ملک بہت امیر ملک ہے اتنے حکمرانوں کے لوٹنے کے بعد بھی آج تک قائم ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی قا ئم رہے گا اور قیامت تک رہے گا ۔ 2018ء کے عام انتخابات میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک تیسری جماعت تحریک انصاف دو پارتی سسٹم کو سکشت سے فاش کر کے پاکستان کا اقتدار سنبھالا اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 22 ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اُ ٹھایا۔

عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی ایک منفرد منشور کا اعلان کیا انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کے طرز کی ریاست بنائیں گے۔ جو کہ پاکستان کی تا ریخ میں کسی اور وزیر اعظم نے پہلے کھی نہ کہا یہ تو خیر ان کی اپنی خواہش ہے لیکن کیا واقع ہی عمران خان اس میں کامیاب ہو ں گے کیا پاکستان واقع ہی ریاست مدینہ کے طرز کی ریاست بن پا ئیگی؟ جی بلکل بن سکتے ہیں لکین یہ کام صرف عمران خان کر سکتے ہیں یا نہیں۔  جیسا کہ ہر بات پہ عمران خان کو تعنہ دیا جاتا ہے کہ ریاست مدینہ بنانے والوں نے حج مہنگا کر دیا سینما گھر پہ پیسے خرچ کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ کام صرف عمران خان کا نہیں ہے ریاست مدینہ ایک قانون نہیں ہے جیسے عمران خان ایک قانون کی طرح پولیس رینجر کی مدد سے نافذ کر سکے ریاست مدینہ کا تعلق روح سے اور ایمان سے ہے ۔ ریاست مدینہ بنانے کے لیے ہم سب کہ اپنے آپ کو تبدیل کرنا پرے گا۔ ہمیں اپنی انفرادی زندگی ، روزمراہ زندگی کو قرآن سنت کے مطابق ڈھالنا پڑے گا۔

ریاست مدینہ میں ظلم نہیں ہو تے تھے لیکن آج پاکستان میں ہر طبقہ اپنے سے نیچلے طبقہ پر ظلم کر رہا ہوتا ہے ۔ اگر آپ خود سے نیچلے طبقے پرظلم چھوڑ دیں تو ریاست مدینہ کی طرف ایک قدم بڑھ جائے گا۔ ریاست مدینہ میں دو گروہ تھے مسلمان اور غیر مسلم ۔ لیکن آج پاکستان میں مسلمانوں کے 72 گروپ ہیں اور ہر گروپ ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے آج اگر تمام فر قے کے علماء کرام آپس کے معمول اختلافات کو پس پشت ڈال اللہ کی رسی کو مضبو طی سے تھام کے ایک ہو جا ئیں تومدینہ کی ریاست کی جانب ایک اور قدم بڑھ جائے گا۔ مدینہ کی ریاست میں انصاف کا بول بالا تھا اگر آج پاکستان کا ہر فرد انصاف کرے ایک دوسرے کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرے تو مدینہ کی ریاست کی جانب ایک ہر قدم بڑھ جائے گا۔

مدینہ کی ریاست میں عورتوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں آئے روز عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے لڑکی پیدا کرنے پر بیوی کو مارنا، لڑکی کو زندہ دفن کر دینا آج کل پاکستان میں عام ہے اگر ہم اپنے اس رو ئیے کو تبدیل کریں عورتوں کو عزت سے دیکھیں عورتوں با پردہ ہو جائیں تو پھر ریاست مدینہ کی طرف ایک اور قدم بڑھ جائے گا۔ ریاست مدینہ میں گناہگاروں کو فوراً سزا ملتی تھی جس کی وجہ سے کوئی اور شخص اس غلطی کو دوبارہ دہرانے کی غلطی نہیں کرتے تھے لیکن آج پاکستان میں بلکل متضاد صورت حا ل ہے غریب لوگ جو ہزار روپے چوری کرتے ہیں تووہ سلاخوں کے پیچھے سڑ رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ امیر لوگ جنہوں نے اربوں روپے کی کرپشن کی ہے وہ آج نہ صرف آزادہے بلکہ اچھے اچھے عہدوں پربر اجماں ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم واقع میں اس ملک کو ریاست مدینہ کی طرز کی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہم سب کو پہلے خود کو تبدیل کرنا پڑے گا اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق گزارنا پڑے گا۔ تب جا کہ ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنا سکتے ہیں اسی لیے شا عر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

install suchtv android app on google app store