سانحہ گیاری سیکٹر: ہم کوئی شہادت بھولے نہیں

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
سانحہ گیاری سیکٹر کے شہدا فائل فوٹو سانحہ گیاری سیکٹر کے شہدا

گیاری سیکٹرمیں 7 اپریل 2012ء صبح 6 بج رہے تھے تمام جوان پاکستان کی حفاظت میں مگن تھے کہ ایک قاتل برفانی تودا گرا جس میں تقریبا 140 سپاہی و سویلین شامل تھے جو اس برفانی تودے کی زد میں آکر دب کر شہید ہو گئے۔

6 اپریل 2012 کا دن خوشی خوشی گزر گیا مگر 7 اپریل کی قاتل و بدنصیب رات کا آغاز ایک خوبصورت بزمی محفل سے ہوا اور جوانوں کی سریلی آواز سے پورے گیاری سیکٹر کے فضا میں گونجتی ہوئی ایک پیغام عام دے رہی تھی کہ کوئی الم ناک واقعہ وقوع پذیر ہونے والا ہے تمام جوان بزمی محفل کے مزے لوٹتے ہوئے اپنی پردیسی کے گیت گاتے ہوئے وطن سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔

غموں کا دور بھی آئے تو مسکرا کے جیو۔۔۔
ہر اک مقام سے آگے قدم بڑھا کے جیو۔۔۔

یہ ناردرن لائٹ انفنٹری(NLI) کی 6 یونٹ کی پلاٹون سیاچن کے ایک مقام میں جس کا نام گیاری سیکٹر سے مشہور ہے جس کی اوسطا اونچائی سطح سمندر سے 4000 میٹر ہے اور سکردو کے شمال مشرقی سمت 300 کلومیٹر پر واقع ہے۔
یہ 7 اپریل 2012ء کے صبح 6 بج رہے تھے تمام جوان پاکستان کی حفاظت میں مگن تھے کہ ایک قاتل برفانی تودا گرا جس میں تقریبا 140 سپاہی و سویلین شامل تھے جو اس برفانی تودے کی زد میں آکر دب گئے۔ اور یہ پوری افوج پاکستان کا پہلا اور بڑا سفاک و الم ناک واقعہ تھا جوکہ سیاچن کے گیاری سیکٹر میں پیش آیا۔جس میں کل 129 سپاہی سمیت اعلی افسران اور 11 سویلین شامل تھے۔
اعلی افسران میں سے کرنل تنویر الحسن جن کا تعلق چکوال سے تھا، میجر ذکاء الحسن کوٹ ادو سے اور کیپٹن ڈاکٹر حلیم اللہ جان جوکہ پشاور سے تعلق رکھتا تھا جنہوں نے شہید ہونے سے کچھ دل قبل گیاری سیکٹر میں حاضری دی تھی۔
جونیئر افسران میں سے عبدالمالک دیامر سے، دیدار کریم ہنزہ سے، خورشید وادی نیلم سے اور افتخار علی سکردو سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔

7 اپریل کا سورج نہیں دیکھنے والے جوان اس برفانی تودے تلے دب کر لاپتا ہوگئے یہ سب اتنا اچانک تھا کہ موت کی سازش کا زندگی کو خبر تک نہ ہوسکی۔ دنیا بھر سے امدادی ٹیمیں پاکستان پہنچ گئیں ان تودے تلے دبے وطن کے فرزندوں کا کھوج شروع ہوا۔ دنیا بھر کے ماہرین تقریبا اس امر کو ناممکن قرار دے چکے تھے ہر شخص کے دل میں ایک ہی ولولہ و جذبہ تھا کہ کہیں نہ کہیں زندگی کا ایک سرا ہاتھ لگ جائے۔ کسی کی ڈوبتی نبض رفتار پکڑے، کتنے معصوم بچوں کی نگاہیں اپنے والد، بھائی، چچا وغیرہ کا بے دردی سے گھر کے چوکھٹ پر انتظار کرتے ہوئے لوٹنے کی آس لگائے بیٹھے رہتے۔ اور انکی معصوم آنکھوں میں مختلف سوالات نظر آرہے تھے۔ مگر انکو کیا معلوم کہ وہ ظالم تودے تلے دب کر خاکستر ہوئے ہونگے۔ ویسے دیکھا جائے تو زندگی کتنی کرب اور عجیب ہے کہ لمحہ بھر زندہ ہیں تو لمحہ بھر میں نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ اس علمناک واقعے کے دوران دادا جان اپنے پوتے پوتیوں کے معصومانہ سوالوں کا جواب دیتے ہوئے نم آنکھوں کے کنارے صاف کرتے ہوئے دن گزارتے۔ صبح شام بچے سوال کرتے تھے کہ ہمارے ابو کدھر ہیں؟ لیکن ماوں کے پاس کوئی منتقی جواب نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو مطمئن کر سکے۔ گیاری سیکٹر کے برف کے تودے تلے کتنے ماوں کی دعائیں دن رات پہرا دیتں اور یہی صدا دیتں کہ میرا بیٹا میری ارمان تھا۔ بیویاں اپنے سہاگ کی معجزاتی واپسی کا انتظار کرتی تھیں اور انکی خیر وعافیت کے لئے ہماوقت دعاگو تھیں اور اپنے معصوم بچوں کو تسلیاں دیتی تھیں کہ تمہارے والد عظیم کام کے لئے گئے ہیں اور وہ اپنا کام ختم کر کے ضرور واپس آئنگے۔ یہ بات وہ اپنے دلوں پہ پتھر رکھ کر کہتی تھیں کیوں کہ آخر کار اپنے بچوں کو بہلانا بھی تھا۔ وقت کا پہیہ گھوم رہا تھا اور کسی قسم کی کامیابی کے اثار نظر نہیں آتے تھے مگر پاک فوج کا عزم و حوصلہ اتنا بلند تھا جو اپنے کام میں مسلسل مستقل مزاجی اور لگن سے اپنی پوری کوشش کے ساتھ اپنے کام میں مصروف عمل تھی۔ ایک لمحہ بھر کے لئے بھی قدم میں کوئی لغزش نہیں آئی اور پاک فوج کے یہ الفاظ تاریخی پہلو سے بہت اہمیت کے حامل تھے کہ "اگر ہمیں یہ پہاڑ یعنی سیاچن کی چوٹی بھی کھودنی پڑے تو ہم کھودنے کے لئے تیار ہیں" یہ دنیا میں واحد اور غیر معمولی فوجی آپریشن تھا جس میں منفی درجہ حرارت میں موسم کی خرابی اور مذید برفباری کے باوجود امدادی کاروائیاں دن رات مسلسل زور و شور سے جاری تھیں۔ دنیا کی مشہور افواج پاکستان کی انتھک اور مسلسل کوششوں کے بعد بالآخر اننچاسویں روز قبل کامیابی مل ہی گئی جس میں پاک فوج اپنے ایک جوان شہید کی جسد خاکی نکالنے میں کامیاب ہو گئی اور ایک سال کی متواتر کوشش و لگن کے نتیجے میں تمام جسد خاکی انکے لواحقین کے حوالے کرکے تمام تر فوجی اعزازت کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔

یہ دن پاکستان کی تاریخ میں ایک تاریک اور سفاک تھا جس نے تمام قوم کے جذبات کا سراسر قتل عام کیا تھا ہر کسی کی آنکھ نم تھی اور غم کا سماں ہر سوں چھایا ہوا تھا ہر آنکھ اشکبار اور ایک پیغام عام دے رہی تھی کہ یہ واقعہ بہت ہولناک اور دل دہلانے والا تھا۔ پاکستان آرمی کو یہ ایک عظیم صدمہ تھا کہ ایک سکوت چھایا ہوا تھا کہ جس کی وجہ سے ہر کوئی اس واقعے سے انکار نہیں کرسکتا تھا۔ پاکستان کی پوری قوم کے دلوں میں ایک کہرام مچا ہوا تھا لیکن پاکستان آرمی کا جوش و ولولہ ایسا تھا کہ اس عظیم سانحے کو ایک عظیم طریقے سے منظم کیا اور ایک حوصلہ مند آرمی قیادت ہونے کا ثبوت دیا اس واقعے میں زیادہ تر فوجیوں کی تعداد گلگت بلتستان کی تھی اور دیگر پاکستان کے صوبہ جات سے بھی فوجیوں کی تعداد شامل تھی جن میں آزاد کشمیر، پنجاب، خیبر پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان کے فوجی جوان بھی شامل تھے۔

پاکستان آرمی میں ایک ایسی فوجی قیادت بھی شامل ہےجس کو NLI کے نام سے جانا جاتا ہے اس فوجی قیادت کی ایک یونٹ NLI-6 جوکہ سیاچن کے گیاری سیکٹر میں اپنی خدمات سر انجام دے رہی تھی۔ NLI کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے گھروں کو وطن کی حفاظت کی خاطر اجڑانے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے مگر دشمن کے سامنے کبھی سر نہیں جھکاتی اور کبھی پیٹھ نہیں دیکھا سکتی انکی کوئی صبح ہوتی ہے نہ شام نہ دن ہوتا ہے نہ رات ہر وقت وطن کی حفاظت انکی اولین ترجیح اور شعار رہتا ہے۔ NLI کے ان شہیدوں کو قوم کبھی نہیں بھولے گی ہر وقت انکی بےپناہ قربانیاں قوم کے لئے ایک پیغام دیتی ہیں کہ جیو تو سر اٹھا کے جیو اور اگر وطن کوئی بھی قربانی مانگے تو پیچھے ہٹنے کے بجائے عظیم قربانی دینے کے لئے دل و جان سے تیار رہے اور ہر وقت پہل کرے کہ وطن کی مٹی کا قرض ادا کرنا ہے۔
شہید ہونے والے جوانوں کے خاندان انکی شہادتوں سے ایسے مطمئن تھے کہ جیسے وہ اپنے شہید ہونے والے پیاروں کو صرف اور صرف شہادت کے لئے ہی پیدا کیا ہو۔ ان میں سے کچھ ماوں، بیویوں اور باپ کے یہ الفاظ تاریخی پہلو سے بہت اہمیت کے حامل تھے کہ اگر وطن کی حفاظت کی خاطر انکو دوسرے بیٹوں کو قربان کرنا پڑے تو پیچھے نہیں ہٹنگے۔ ایک شہید کے والد کی وطن سے محبت کا اتنا اظہار حب الوطنی تھا کہ اگر مجھے اپنے دس کے دس بچوں کو وطن کی بقا کی خاطر قربان کرنے کی ضرورت پڑے تو کبھی دریغ نہیں کروں گا۔ اور ایک شہید ہونے والے جوان کی بیوی کے یہ تاریخی الفاظ تاریخ کے سنہرے حروف میں رقم کی گئی کہ میرے شوہر تو شہید ہوگئے ہیں اور مجھے انکی شہادت پر فخر ہے کیوں کہ انہوں نےاپنے وطن کی حفاظت کی خاطر جام شہادت نوش کی ہے۔

وطن کے ساتھ یہ عزم و ولولہ پاکستان کی قوم میں ایسے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کہ ہر کوئی دل و جان سے قبول کرتا ہے کہ شہادت ایک مقدس مقام ہے جو ہر عام و خاص شخص کے لئے اعلی مقام و مرتبے کی حیثیت رکھتا ہے۔
*ہم چھوڑ گئے دم توڑ گئے
ہم برف کی چادر اوڑھ گئے۔

install suchtv android app on google app store