استور میں معیاری تعلیم کا فقدان

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
ساجد حسین ساجد حسین

یوں دیکھا جائے تو استور گلگت بلتستان کا وہ عظیم و قابل قدر خطہ ہے جس میں قدرت کے نظارے انسان کو اپنی طرف مائل کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

انسان کی عقل و فہم دھنگ رہ جاتی ہے کہ استور ایک جنت نظیر کا رتبہ رکھتا ہے۔ اللہ تعالی نے استور کو اعلی خوبصورتی سے ہمکنار کیا ہے استور سے منسلک علاقے جتنے بھی ہیں وہ کافی پر رونق اور دلکش مناظر پیش کرتے ہیں۔

استور کی تمام تر مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ چند منفی حقائق بھی پائے جاتے ہیں جن سے علاقے کی غربت ظاہر ہوتی ہے۔ جن میں سرفہرست تعلیمی معیار کا فقدان ہے۔ استور کے تقریبا سات یونین کونسل ہیں لیکن معیاری تعلیم کا اتنا فقدان ہے کہ وہاں ایک عام آدمی کی روز مرہ زندگی بہت متاثر ہے اور لوگ جوق در جوق علاقے کو چھوڑ کر معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے دوسرے بہتر علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
استور میں بنیادی معیار تعلیم اتنا متاثر ہے کہ جس میں بہتر تعلیم کا کوئی خاص سیٹ اپ نہیں پایا جاتا۔
معیاری تعلیم کا فقدان کا اتنا عالم ہے کہ پری پرائمری تعلیم کے اداروں کا سرے سے کچھ علاقوں میں قیام عمل میں نہیں لایا گیا ہے جس سے علاقے کی عوام بدحالی کا شکار ہے۔ استور میں ٹیکنیکل تعلیم کا کوئی خاص بنیادی نظام نہیں اور اعلی تعلیم کے حصول کے لئے بہتر اداروں کی کمی کی وجہ سے استوری عوام جوق در جوق علاقے کو خیر باد کہنے پر مجبور ہیں جبکہ علاقے کے ذمداران ہاتھ پہ ہاتھ دھڑے تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

استور ہیڈ کوارٹر میں طلباء و طالبات کے لئے ہوسٹل سسٹم کے کوئی اہم انتظامات نہیں ہونے کی وجہ سے عوام سخت پریشانی کے عالم میں ہے اور اپنے بچوں کی رہائش کے مسائل کی بنا پر اعلی تعلیم کے حصول کے لئے کوئی خاص پیش رفت نہیں دیکھا سکتے ہیں۔
استور میں گورنمنٹ سکولوں کا بہتر نظام نہیں اساتذہ کی عدم توجہی اور سکولوں میں بہتر فرنیچر نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں بہت متاثر ہیں۔
علاقے میں تعلیم کے فروغ کے لئے والدین اور سکول انتظامیہ میں آپس کے تعملات کی کمی کا عنصر پایا گیا ہے جس میں والدین کی عدم توجہی سے بچوں میں تعلیم کا کوئی اثر نہیں جس کی بنا پر بچے بہتر کارکردگی سے اکثر محروم رہتے ہیں اور انکی تعلیمی سرگرمیاں بہت متاثر ہوتیں ہیں۔
سب سے استور میں بڑا تعلیمی فقدان کا المیہ یہ ہے کہ بہتر کیرئر کونسلنگ کی کمی اور بہتر تعلیمی مشورے نہ ملنے پر کافی لوگ اپنے بچوں میں تعلیمی شعور کی کمی کی وجہ سے اپنے بچوں کے مستقبل کا بہتر فیصلہ نہیں کرپاتے جس سے انکے تعلیمی اغراض و مقاصد اکثر پورے نہیں ہوتے۔
آج اکیسویں صدی کا دور عروج پر ہے دنیا جدید سے جدید تر ہوتی چلی جارہی ہے اور ٹیکنالوجی سے لیس اپنے منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے لیکن استور کی تعلیمی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ استور میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کا کوئی خاص ادارہ سرے سے موجود نہیں جس کی وجہ سے آج نوجوان نسل در بدر کی ٹھوکریں کھا کر پاکستان کے دیگر شہروں میں ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کرنے پر مجبور ہے۔

استور کے تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے حکومت کی عدم توجہی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے آج علاقے کی تعلیمی سرگرمیاں کافی حد تک متاثر ہیں اور معاشرے کے معماروں کا مستقبل دھاو میں لگتا ہوا نظر آرہا ہے تعلیمی اداروں کی ترویج کے لیے حکومت کا کوئی مثبت اقدام نہیں جس کی وجہ سے تعلیمی فقدان کا علاقے میں بول بالا ہے۔
استور میں اعلی افسران کی کوئی کمی نہیں ہر محکمے میں استور کے اعلی آفسران پائے جاتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پڑھے لکھے آفسر حضرات علاقے کو خیر باد کہہ کر چلے جانے پر تلے ہوئے ہیں اور اپنی تمام تر خدمات دوسرے علاقوں میں جاکر سر انجام دینے پر اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔ جس کی بنا پر طلباء کے لیے موٹویشن میں کمی اور تعلیمی میدان میں کوئی خاص پیش رفت ثابت نہیں ہوتی۔
تعلیم کے محکمے کے لحاظ سے بات کی جائے تو آج ہر گلی کے نکڑ پر پرائویٹ سکولنگ پایا جاتا ہے گورنمنٹ سکولوں کو اتنی اہمیت و فوقیت نہیں مل رہی جس کی وجہ سے گورنمنٹ سکولوں کا ویلیو کافی حد تک متاثر ہوتا نظر آرہا ہے۔ آج امیر لوگ تو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے سوچ کر پرائویٹ سکولوں کی طرف راغب ہوتے ہیں لیکن ایک غریب اور مڈل کلاس آدمی کی اتنی مالی سکت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کو پرائویٹ سکول کا دروازہ تک دیکھا سکے۔ پرائویٹ سکولوں میں صرف اور صرف اپنے سکول کی پروموشن اور سٹیٹس کا مقابلہ ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور کاروبار کا بہتر ذریعہ ہے فیسوں کی اندھا دھند اضافے کی وجہ سے والدین حیران و پریشان ہیں۔
استور میں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے یونیورسٹی نہ ہونے کی وجہ سے آج تمام نوجوان نسل ہر طرف بکھری پڑی ہے جس میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہو وہ کبھی کبھار اپنے جذبات کا قتل عام کرتے دیکھائی دیتا ہے کیونکہ اس پرآشوب اور مہنگائی کے دور میں اتنا حوصلہ نہیں رکھتا کہ وہ پاکستان کے دیگر شہروں میں جاکر اعلی تعلیم حاصل کرے۔
سب سے بڑا افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ لوگ گورنمنٹ سکولوں میں پڑھانے کے باوجود اپنے بچوں کو پرائویٹ سکولوں میں تعلیم دلوانے کے خواہاں ہوتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کی تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

تعلیم کی بہتری، علاقے میں تعلیم کی بہتر ترویج اور تعلیمی فقدان کو دور کرنے کے لیے چند مفید تجاویز ذیر غور طلب ہیں۔
۔۔استورریجن میں تعلیم کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف تعلیمی آگاہی پروگرامز یعنی سیمینارز وغیرہ کا انعقاد کیا جائے جس سے علاقے میں پائے جانے والی تمام تعلیمی خرافات دور ہونگیں اورعلاقے کے لوگ تعلیم کے میدان کی طرف راغب ہو سکے۔
۔۔این جی اوز سیکٹرز سے روابط بڑھا کر پری پرائمری اور گرلز سکولوں کے لئے امداد طلب کی جائے جس سے علاقے میں تعلیمی فقدان کا ایک خاص حد تک سدباب ممکن ہو اور علاقے کے لوگ تعلیم کے میدان میں فعال ہوسکے۔

کمیونٹی بیسڈ سکولوں کا اجراء ہو جس سے نہ صرف عوام کو فائدہ ہوگا بلکہ پورے علاقے میں تعلیم کی راہ ہموار ہوگی اور لوگ جوق در جوق تعلیم کی طرف راغب ہونگے۔
۔۔مختلف کالج و سکول کمیٹیاں تشکیل دی جائے جس میں علاقے کے لوگوں کی شرکت داری کو یقینی بنائی جائے۔
۔۔اعلی تعلیمی اداروں کی ترویج و نشونما کے لئے ہر سیاسی و سماجی فورم میں بات کی جائے جس میں تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کے لئے بہتر نتائج کو ملحوظ خاطر رکھے جائے۔
۔۔کوئی ایسا پلیٹ فارم کا بندوبست کیا جائے جس میں اساتذہ کی تعلیمی تربیت کا اہتمام ہو۔
۔۔نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے یوتھ فیسٹیول کا انعقاد کیا جائے جس میں علاقے کی نوجوان نسل میں آگے بڑھنےکا حوصلہ پیدا ہو اور بہتر مستقبل کی راہوں میں گامزن ہوں۔
۔۔جن لوگوں کی تعلیمی میدان میں بہتر خدمات ہیں انکو سرہاتے ہوئے اور پوزیشن ہولڈر طالبعلموں کی بہتر ترویج و حوصلہ افزائی کے لیے تقریبات منعقد کی جائے۔

install suchtv android app on google app store