گزشتہ دنوں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی فیس بک پیج پر ایک خبر شائع ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ یونیورسٹی کے چار سابق طالب علم—انوشہ خان، انارہ، محمد عزیر احمد اور باسط علی—جو انگلش ڈپارٹمنٹ سے فارغ التحصیل ہیں، انہوں نے امریکہ کی ایک نامور یونیورسٹی( Hawaii Pacific university)کے ساتھ اشتراک میں ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے جس کا موضوع (Conservation of Endangered Medicinal Plants) تھا۔
اس خبر پر سوشل میڈیا پر مختلف آرا دیکھنے کو ملیں۔ کچھ افراد نے سوال اٹھایا کہ کیا انگریزی ادب کے طالب علم ماحولیاتی یا نباتاتی علوم میں تحقیق کر سکتے ہیں؟ کیا یہ سائنسی تحقیق کے اصولوں کے مطابق ہے؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے میں مختلف ماہرین سے رائے لی تاکہ عالمی سطح پر اس رجحان کو سمجھا جا سکے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر آصف خان نے وضاحت کی کہ بین الشعبہ جاتی تحقیق (Interdisciplinary Research) دنیا بھر میں ایک تسلیم شدہ روایت ہے۔ ان کے مطابق، اگر کسی محقق کے پاس کسی دوسرے شعبے میں گہری سوجھ بوجھ، مضبوط علمی بنیاد، اور تحقیق کے درست طریقے ہوں، تو وہ کسی بھی موضوع پر تحقیق کر سکتا ہے۔
اسی طرح، کینیڈا میں تدریس سے وابستہ ڈاکٹر شوکت کا بھی یہی موقف تھا کہ تحقیق کسی مخصوص دائرے تک محدود نہیں، بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ محقق کی تحقیق کتنی شواہد پر مبنی اور نتیجہ خیز ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ کسی بھی میدان میں تحقیق کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تحقیق معروضی (Objective) اور نتائج پر مبنی ہو۔
نیپال بیسڈ ماہرِ گلیشیالوجی ڈاکٹر شیر محمد نے بھی اس خیال کی تائید کی کہ تحقیق کسی ایک فیلڈ تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے موضوع پر اچھی گرفت اور مناسب علمی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق، کسی دوسرے میدان میں تحقیق کرنے والے افراد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ متعلقہ ماہرین کے ساتھ مشاورت کریں تاکہ تحقیق سائنسی اور معیاری ہو۔ یہ آرا واضح کرتی ہیں کہ عالمی سطح پر بین الشعبہ جاتی تحقیق ایک عام رجحان ہے، لیکن پاکستان میں اس تصور کو اب بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
"اس تحقیق پر کام کرنے والے طلبہ انارہ اور انوشہ خان سے جب میں نے اس پروگرام اور ٹاپک سیلکشن کے حوالے سے بات کی تو انکا کہنا تھا۔ ہم ایکسس اسکالرشپ پروگرام کے تحت امریکہ گئے تھے۔ یہ ایک اساتذہ کے تبادلے کا پروگرام تھا، جس کے تحت ہم ہوائی میں واقع ہوائی پیسیفک یونیورسٹی گئے، جہاں ہماری 15 روزہ تربیت "سروس لرننگ" کے موضوع پر ہوئی۔تربیت کے اختتام پر، ہمیں تین مختلف موضوعات دیے گئے:
سوشل جسٹس (سماجی انصاف)، ماحولیاتی تحفظ (Environmental Conservation)،ثقافتی ورثہ (Cultural Heritage) ،ان میں سے ہمیں ایک موضوع منتخب کرکے ایک پروپوزل تیار کرنی تھی، جسے ہم پاکستان واپس آ کر اپنے ایکسس اسکالرشپ پروگرام کے تحت نافذ کرتے۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر انگریزی زبان کی تعلیم پر مبنی ہے، جہاں 13 سے 20 سال کی عمر کے بچوں کو انگریزی سکھائی جاتی ہے۔سروس لرننگ کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ طلبہ کلاس روم میں ایک مخصوص زبان یا مضمون کے ذریعے سیکھتے ہیں، اسے وہ عملی طور پر معاشرے میں نافذ کریں اور حقیقی مسائل کے حل کی طرف جائیں۔ہم نے اپنے پروجیکٹ کے لیے ادویاتی پودوں (Medicinal Plants) کے موضوع کا انتخاب کیا۔ ہماری ہدفی سامعین (Target Audience) کے ساتھ مل کر ہم نے پودوں کی کاشت کو فروغ دینا تھا۔ اس کے علاوہ، بچوں کو تعلیمی دوروں (Trips) پر لے جانا اور دیگر متعلقہ سرگرمیاں بھی منصوبے میں شامل تھیں۔ہمارے یہ تمام سرگرمیوں کے لے ذبان کی میڈیم۔ انگلش ہوگی۔ انکا مزہد کہنا تھا کہ اگر ہم کسی اور موضوع، جیسے زبان یا کسی اور شعبے پر تحقیق کرنا چاہتے تو ہمارے پاس یہ اختیار موجود تھا۔ لیکن چونکہ ہمارے ذہن میں پہلے سے ایک پلان موجود تھا، اس لیے ہم نے ایک ایسا پرپوزل دیا جس پر کام کرنے سے ہماری کمیونٹی کو بھی فائدہ ہو۔ ہم نے اپنا تحقیقی ماڈل وہاں پیش کیا تو نہ صرف ہمیں سراہا گیا بلکہ مقامی ماہرین نے ہماری تجویز کو مثبت انداز میں قبول کیا۔ ہمیں وہاں ایک اچھی شناخت ملی، اور ہم نے گلگت بلتستان کی بھرپور نمائندگی کی"
جہاں تک اس مخصوص تحقیق کا تعلق ہے، مقالے کا جائزہ لینے پر مجھے جو کچھ سمجھ ائی اس کا خلاصہ کچھ یہ ہے۔
"گلگت بلتستان میں قیمتی جڑی بوٹیاں ماحولیاتی تبدیلی اور بے دریغ کٹائی کے باعث معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک منفرد تعلیمی منصوبہ متعارف کرایا گیا ہے جو زبان سیکھنے کو عملی ماحولیاتی سرگرمیوں سے جوڑتا ہے۔یہ تحقیق نہ صرف تعلیمی میدان تک محدود ہے بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ اس سے مقامی افراد ماحولیاتی تحفظ میں کردار ادا کر سکتے ہیں، روایتی ادویات کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں، اور نوجوانوں کو زبان سیکھنے کا ایک عملی موقع ملتا ہے۔ جڑی بوٹیوں کے تحفظ سے مقامی کسانوں اور کاروباری افراد کو بھی فائدہ پہنچے گا۔تاہم، اس ماڈل کی کامیابی کے لیے کمیونٹی، تعلیمی اداروں، اور حکومتی اداروں کی شمولیت ضروری ہے۔ یہ تحقیق نہ صرف جڑی بوٹیوں کے معدوم ہونے پر انتباہ ہے بلکہ مقامی ثقافتی اور ماحولیاتی وراثت کے تحفظ کا ایک موقع بھی فراہم کرتی ہے۔"
آخر میں اتنا گزارش ہے کہ اس طرح کے تحقیق کو فروغ دنیا چاے تاکہ تحقیق کے بہت سارے نئے انیگل سامنے اجائیں۔
