کمپٹیشن کمیشن نے اپنی تازہ اسسٹمنٹ اسٹڈی میں گولڈ مارکیٹ کو دستاویزی شکل دینے کیلئے اتھارٹی تشکیل دینے کی سفارش کر دی۔
کمپٹیشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سونے کی مارکیٹ غیر دستاویزی اور غیر شفاف قیمتوں کا شکار ہے، پاکستان میں سالانہ 60 سے 90 ٹن تک سونے کی کھپت ہوتی ہے۔
ملک میں 90 فیصد سے زیادہ سونے کی تجارت غیر رسمی چینلز سے ہوتی ہے، مالی سال 2024 میں 17 ملین ڈالر مالیت کا سونا درآمد کیا گیا، کمپٹیشن کمیشن نے کہا کہ ریکو ڈیک گولڈ پراجیکٹ 37 سالہ دورانیے میں تقریباً 74 ارب ڈالر مالیت کا سونا پیدا کرے گا۔
ریکو ڈیک منصوبہ سونے کی سپلائی چین کو بدلنے کی ممکنہ طاقت رکھتا ہے، غیر دستاویزی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے سونے کا زیادہ تر لین دین نقد ہوتا ہے۔
کمپٹیشن کمیشن نے نشاندہی کی کہ غیر دستاویزی مارکیٹ کی وجہ سے سونے کا زیادہ تر لین دین نقد میں ہوتا ہے اور کچھ تاجروں کے گروہ مارکیٹ میں قیمتوں اور سپلائی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ملک میں سونے کے نرخ مقرر کرنے کا کوئی باقاعدہ مارکیٹ میکانزم موجود نہیں، مختلف شہروں کی ایسوسی ایشن روزانہ کی بنیادوں پر قیمتوں کا تعین کرتی ہیں۔
ملک میں سونے کی مارکیٹ کو ریگولیٹ کرنے کے لئے جامع ریگولیشن موجود نہیں،کمپٹیشن کمیشن نے کہا کہ سونے کی ٹرانزیکشن پر پیچیدہ ٹیکس کا نظام اسمگلنگ اور انڈر انوائسنگ کو فروغ دیتا ہے۔
ملک میں سونے کی ریفائننگ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، سونے کی ہال مارکنگ کی ناکافی سہولیات کے باعث ملاوٹ کے مسائل جنم لیتے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا کہ سونے کی درآمدات، فروخت اور خالص ہونے سے متعلق قابلِ اعتماد ڈیٹا موجود نہیں۔
سونے کا ڈیٹا نہ ہونے سے مؤثر پالیسی سازی ممکن نہیں، گولڈ مارکیٹ کو منظم کرنے کیلئے کمپٹیشن کمیشن نے جامع اصلاحات تجویز کر دیں۔
کمپٹیشن کمیشن نے سفارش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان گولڈ اینڈ جیم اسٹون اتھارٹی تشکیل دی جائے، سونے کی لائسنسنگ، درآمدات اور اینٹی منی لانڈرنگ ریگولیشنز کے نفاذ کیلئے جامع اتھارٹی قائم کی جائے۔