قرارداد پاکستان، نسلوں کی ترقی کی ضامن

قرارداد پاکستان، نسلوں کی ترقی کی ضامن فائل فوٹو قرارداد پاکستان، نسلوں کی ترقی کی ضامن

 پاکستان کا معرض وجود میں آنا ایک معجزہ تو تھا ہی لیکن یہ سب جدوجہد اچانک ہی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچی بلکہ اسکے پیچھے کئی دہائیوں کی محنت اور کوشش کارفرما تھی ۔ جیسے جیسے دو قومی نظریہ کی گونج ہرذی شعور انسان کو متاثر کر گئی تو ایک الگ مملکت کے قیام کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔

دو قومی نظریہ جس کے داعی سرسید احمد خان تھے علامہ اقبال اور پھر قائد اعظم ۔ سب ہی نے نظریہ پاکستان کی اپنے اپنے تئیں تشریح کی۔
سرسید احمد خان کی تدریسی خدمات اور علامہ اقبال کے فرمودات کا محورابتدا میں برصغیر پاک و ہند کے باشندے تھے ۔ لیکن بدلتےہوئے حالات انگریزوں کی دوغلی پالیسی اورہندوانہ سازشوں کی بنا پر قائد اعظم اور دیگر راہنمائوں نے یہ بھانپ لیا تھا۔
کہ علحدہ مملکت کے قیام کا مطالبہ صرف اس لئے تھا کہ مسلماناں ہند اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں ۔ ان کا رہن سہن ، طرز بودوباش ، اخلاقی اور مذہبی اقدار ہندوئوں سے یکسر مختلف ہیں اس بنا پر انھیں ایک الگ اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
تاہم قائد اعظم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اس ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جائے گا ۔ جہاں قائد اعظم نے یہ فرمایا کہ ہم اس مملکت کا حصول اسلئے چاہتے ہیں کہ ہم ایک خدا اور ایک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکامات پر عمل پیرا ہو سکیں اورقرآن پاک ہی ہمارا منشور ہو وہیں قائد اعظم نے یہ بھی واضح کیا کہ یہاں بسنے والی تمام اقلیتوں کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق مندر ، گرجوں اور گردواروں میں جانے کی آزادی حاصل ہو گی ۔

مملکت خداداد کی تشکیل کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں آئیں ۔ لاکھوں مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عصمت کی قربانی دی ۔ ان گنت لوگ بے گھر بھی ہوئے ۔ قتل وغارت کا ایک بازار گرم ہوا وہ ہندو قوم جو مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہنے کے دعویدار تھی پاکستان کے قیام کا سنتے ہی ان کے رویوں میں کافی بدلائو آچکا تھا ۔
ایک مرتبہ قائد اعظم محمد علی جناح سکول و کالج کے طلبہ سے خطاب کر رہے تھے کہ ایک ہندو لڑکے نے ان سے سوال پوچھا کہ ’’ ہندو اور مسلم میں کیا فرق ہے جو آپ ایک الگ ریاست بنا کر ہمیں تقسیم کرنا چاہ رہے ہیں ؟‘‘ قائد اعظم نے نہایت بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک گلاس پانی کا منگوایا اسے تھوڑا سا پیا پھر ایک ہندو لڑکے کو بلا کر اس پانی کو پینے کو کہا تو اس نے انکار کر دیا ۔ قائد اعظم نے پھر ایک مسلم لڑکے کو بلا کر وہی پانی پینے کو کہا تو وہ فورا وہ پانی پی گیا ۔ اب قائد اعظم نے اس ہندو لڑکے سے مخاطب ہو کر یہ تاریخی جملہ کہا کہ ۔ ’’ یہ فرق ہے آپ میں اور ہم میں ۔ ‘‘

آج اگر ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کی اہمیت ہے تو اس وجہ سے کہ پاکستان کے قیام کا جواز ہی یہی قرارداد ہے ، یہ نہ صرف اس وقت کے مسلمانوں بلکہ دور حاضر کے پاکستانیوں اور مسلمانوں کی ترجمانی کرتی ہے ۔ گویا یہ ایک ایسی نظریاتی اساس ہے جس نے پاکستان کو قائم و دائم رکھا ہوا ہے ۔ ۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ قائد اعظم کی ذہانت اور فراست نے ہندو ذہن کا تجزیہ کر لیا تھا ، دوقومی نظریے کا آج بھی زندہ ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہندو اور مسلم کبھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔

پاکستانی ایک امن پسند قوم ہیں ہمارے فوجی جوان دن رات سرحدوں پر ہماری حفاظت میں مصروف ہیں لیکن بھارت کے جارحیت پسندانہ رحجان کی بنا پر ہمیں اپنے دفاع کی اور بھی زیادہ ضرورت پیش آئی اور ہم نے اٹیمی قوت کے بروقت استعمال سے بھارت کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔
بھارت کبھی مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی سے حل کرنے پر آمادہ نظر نہیں آیا مظلوم اور نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی جاتی ہے ۔پیلٹ گنوں کے استعمال سے کتنے بچوں اور نوجوانوں کی بینائی تک چھین لی گئی ،آئے روز ہماری سرحدی حدود کی خلاف ورزی کر کے معصوم عوام کو جانی اور مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے ۔

اس سے بڑھ کر دو قومی نظریے کے دائمی ہونے کا ثبوت کیا ہو گا کہ آج بھارت ایک جانب سیکولر ہونے کا دعوی کرتا ہے تو دوسری جانب کالے قوانین پاس کر کے کبھی سکھ کاشت کاروں کو پریشان کیا جاتا ہے تو کبھی دہلی میں مسلمانوں پر فسادات کروا دئیے جاتے ہیں ۔ خواہ عیسائی ہوں ، سکھ یا دلت کسی کی کوئی عزت بھارت میں محفوظ نہیں ۔ آج بھارت میں رہنے والے شہری بھی قائد اعظم کے دو قومی نظریے کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
دو قومی نظریہ کبھی مر نہیں سکتا کیونکہ ہندو ذہینیت کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی ۔ ہماری پاک افواج اور سول حکومت ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور ایک پیج پر ہیں لیکن عوام الناس کو بھی آپس کے اختلافات ختم کر کے دو قومی نظریہ کی بقا کے لئے کام کرنا ہو گا تاکہ ۲۳ مارچ کو منانے کا حق عملی طور پر ادا ہو سکے ۔

install suchtv android app on google app store