سی ٹی ڈی، کب تک ڈرامہ

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ

19 جنوری، شادی، تیاری، روانگی، گاڑی، خاندان، ڈرائیور، دوست، سفر، ساہیوال ور سڑک، ان لفظوں میں ایک تقریب کا ذکر ہے جس کی جانب ایک خاندان پورے اہتمام سے گامزن ہے۔ سات کار سواروں کے دل و دماغ میں کیا دھنیں سوار تھیں یہ تو اللہ اور اس کے فرشتے ہی جانتے ہیں۔ رخت سفر ساتھ لیے یہ سات جانیں شہرِ ساہیوال کی ایک سڑک پر پہنچیں تو ایک غیر متوقع صورتحال کا سامنا ہوگیا۔ کیا منظر تھا چلیں اس کی طرف بڑھتے ہیں۔

گولیاں، لاشیں، زخمی پھول، عملہ، پٹرول پمپ اور اسپتال، اِن الفاظ میں ایک عمل پنہاں ہے جس کا ذکر ہی تحریر کا مقصد ہے۔ سنسان سڑک پر ایک گاڑی کو روک کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی گئی۔ سڑک اور متاثرہ گاڑی وہی تھیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ گاڑی میں بیٹھے سات افراد میں سے چھ ایک ہی خاندان کے تھے یعنی میاں بیوی اور چار بچے۔ ساتواں ڈرائیور ذیشان تھا جو اِس خاندان کے سربراہ خلیل کا دوست تھا اور فیملی کو شادی پر لے جارہا تھا۔ ڈرائیور بھون ڈالا گیا لیکن خاندان کے افراد بھی یک لخت چھ میں سے تین رہ گئے۔ وہ بھی چھوٹے بچے۔ پھر سیکیورٹی فورس کی گاڑیاں جائے واردات پر آتی ہیں اور بچ جانیوالے بچوں کو گاڑی سے نکال کر پٹرول پمپ پر چھوڑ دیتی ہیں۔ پھر خفیہ احکامات ملنے پر اُسی قسم کی بغیر نمبر پلیٹ گاڑی میں ڈال کر بچوں کو اسپتال چھوڑا جاتا ہے اور یہی نقاب پوش مخلوقِ خدا، لوگوں کو چکر دیتے ہوئے رفو چکر ہو جاتی ہے۔ جانے یہ کونسا جذبہ تھا جس کے تحت زخمی پھولوں کو اسپتال پہنچایا گیا۔ لیکن اس عمل سے وہ انکشافات منظر عام پر آئے کہ گمنام کارروائی زبانِ زدِ عام ہونے لگی۔
سی ٹی ڈی، مقابلہ، دہشتگرد، ہلاکتیں، میڈیا، بیان، کارروائی، واقعہ اور سانحہ، یہ الفاظ بھی تسلسل تو درج بالا تحریر کا ہی ہیں لیکن آپ کو ایک اہم ترین خبر سے آشنا کر رہے ہیں۔ ہمارے فعال ترین الیکڑانک میڈیا پر کچھ ایسی سلائیڈز نمودار ہوئیں کہ سی ٹی ڈی کی کارروائی، چار دہشتگرد ہلاک۔ سی ٹی ڈی یعنی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ جس کا اردو ترجمہ ہے محکمہ انسداد دہشتگردی ہے۔ سنا تھا کہ پانچ چیزیں خبر کی بنیاد ہو کرتی ہیں جنہیں انگریزی میں پانچ ڈبلیو ایچ اور اردو میں پانچ ک سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اِن میں دو تو پہلے دن لے کر آج تک پتہ نہیں چل سکیں اور وہ ہیں کیوں اور کون۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ پانچ سوال ہیں جن کے جواب ہی خبر کی بنیاد ہوا کرتے ہیں اِن بنیادی سوالوں میں سے دو کا جواب آج تک معمہ بنا ہوا ہے۔ اِن دو سوالوں کا جواب دیتے دیتے اداروں اور حکومت نے وہ وہ رنگ بدلے کہ گرگٹ نے بھی رنگ بدلنا چھوڑ دیا۔ اور ہوسکتا ہے کہ گرگٹ اپنے فارغ اوقات میں سوچنے پر مجبور ہو کہ کتنے رنگ باز ادارے اور حکومت ہیں۔ کسی حد تک یہ روایت ہے کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن کیونکہ پاکستان نیا ہے اس لیے اس میں بھی نیا پن نظر آرہا ہے۔ ورنہ سابق ادوار بھی رنگ بازی کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ یہ رنگ بازیاں پھر کبھی سہی، چلتے ہیں موضوع کی جانب۔ رپورٹنگ میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی ہوئی تھی لیکن بچنے والے تین پھولوں میں سے ایک معصوم کی معصومیت نے خبر کی نوعیت ہی بدل ڈالی۔ اِس معصوم عینی شاہد نے نہ صرف اپنے والدین کو گولیوں کی تڑ تڑ میں مرتے دیکھا تھا بلکہ اُس وقت کے قول و فعل بھی اُس کے دل و دماغ پر یوں چسپاں ہو گئے کہ سننے والوں کی دلچسپیاں بھی ہمدردیوں میں بدلنے لگیں۔ کیا کہا اُس نے یہ تو کبھی ماں کے پیار اور باپ کی شفقت پر لکھتے ہوئے تحریر کا آغاز بناؤں گا ابھی صرف اِس معصوم کے بیان کے اثرات اور ثمرات قلمبند کر لوں۔ معصوم بیان کا پہلا اثر یہ ہوا کہ میڈیا پر آنیوالی ادارے کی کارروائی اور موقف کی دھجیاں ہی بکھر گئیں۔ کارروائی نے ایک واقعے کی شکل اختیار کر لی جس پر سوئی حکومت کا جاگنا پہلے ضرورت پھر مجبوری بن گیا۔ وزارت عظمیٰ کی وزارتِ اعلیٰ سے ٹیلیفونک گفتگو نے صوبائی حکومتی ڈھانچے کو عوام سے ایسے روشناس کرایا جیسے انہیں بھی ابھی پتہ چلا ہو کہ کسی بھی وزیر کے پاس کونسا قلمدان ہے اس کی ذمہ داری کیا ہے اور وہ کِسے جوابدہ ہے۔ بیانات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے دنیا بھر کو بتانا شروع کر دیا کہ جنہیں پل پل باخبر رہنا چاہیے وی کتنے بے خبر ہیں۔ وزرا ہر بیان میں ملوث افراد کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے وقت مانگ لیتے لیکن ہر بار موقف کا تضاد اُنہیں مزید وقت مانگنے پر مجبور کر دیتا۔ زخمی پھول کے دیئے بیان نے جو ثمر اُسے دیا پہلے وہ بتا دوں۔ آپریشن میں ہلاک کیے گئے چار دہشتگردوں میں سے تین جو اُس کے والدین اور بہن تھی وہ اُس نے بے قصور ثابت کروا لیے۔ جس کا اظہار صوبائی وزیر قانون نے ادارے کی اِن کیمرہ بریفنگ کے بعد میڈیا کے سامنے کیا۔ اِس اعتراف نے پوری کارروائی اور اس کے ذمہ داران کے قول و فعل پر وہ طانچہ مارا کہ دہشتگردوں کے خلاف کی کارروائی پہلے واقعے میں تبدیل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سانحہ بن گئی۔
جے آئی ٹی، لواحقین، شناخت، مشکوک، ماں، ایوان، کمیٹی، 72 گھنٹے، نشان عبرت اور سوالیہ نشان، مجموعہ الفاظ تحریر کا اختتامی حصہ ہے لیکن یہی حصہ موضوع کو واضح کرے گا۔ سانحے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی جس کا سب سے پہلا کام ملزمان کی شناخت کے ساتھ ساتھ لواحقین اور گواہوں کے بیانات کی ریکارڈنگ کا تھا۔ شناخت کے حوالے سے تو سیکیورٹی اداروں نے ایسا سلسلہ اپنایا جس نے عینی شاہدین کو شاہِد ہونے پر ہی کوسنا شروع کر دیا۔ بحرحال یہ بھی سیکیورٹی اداروں کی ماہرانہ صلاحیتوں کا ایک خاصہ ہے۔ چلتے ہیں بیانات کی جانب تو آدھے بچ جانیوالے خاندان کے افراد نے تو تحقیقاتی ٹیم کے انداز اور رویوں کو پرکھتے ہوئے بیان دینے سے انکار کر دیا لیکن میڈیا پر اپنا اظہار جاری رکھا۔ پرکھنے کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ جس ادارے نے کارروائی کی وہ بھی سیکیورٹی پر مامور تھے اور جو تحقیقات کر رہے ہیں وہ بھی سیکیورٹی ہی دے رہے ہیں۔ رُخ کرتے ہیں اُس دہشتگرد کی جانب جس کے لیے ادارے نے کارروائی کی تھی اور ایک گھر کے تمام بڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ صرف وہ بے قصور ہیں اُسی ادارے اور جے آئی ٹی کا موقف ہے۔ ہلاک ہونیوالے ڈرائیور کا بھائی بھی ایک سیکیورٹی فورس کا حصہ ہے۔ اِسی بھائی کی بھرتی کے دوران تحقیق پر انہی اداروں کے خفیہ ملازمین کی اپنی رپورٹوں میں اُسی شخص کی گواہی ڈالی گئی ہے جو ان کی نظر میں ایسا دہشتگرد تھا کہ اُس کے چکر میں ایک گھر کے سرپرستوں کو بھی موت کی نیند سلانے میں کوئی توقف نہ کیا گیا۔
مارے گئے مشکوک شخص کی ماں کی ممتا بھی شک میں پڑ گئی اور اَن پڑھ ہوتے ہوئے بھی چند معصوم سوالوں میں یوں اظہار کرتی رہی کہ تربیت یافتہ ادارہ اور جوائنٹ ٹیمیں سر جوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ماں کے تیور اور باقی لواحقین کے انداز کو دیکھتے ہوئے علاقے کا ایس ایچ او گھر کے افراد کو یہ کہہ کر دارالخلافہ اسلام آباد لے آیا کہ صدر مملکت اور دیگر ارباب اختیار سے ان کی ملاقات کروانی ہے۔ پھر اِس سفر کی روداد ممتا اور عزیزوں نے بجائے کسی کو بتانے کے میڈیا پر ہی آشکار کی اور سب نے سنی۔ اِسی ماں کی روداد نے ایوان میں بیٹھنے والوں کو ایسی تحریک دی کہ انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کا احساس شدت سے ہوا اور سڑکوں پر گھومتی ممتا کو ایوانِ بالا کی سیٹیں دستیاب کر کے سب کچھ سنا۔ بعد ازیں قائمہ کمیٹی نے بھی حکومت کو انصاف کی فراہمی کے لیے کارروائی کا لِکھ بھیجا۔ قصہ مختصر تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی آخری رپورٹ نے چاروں مرنے والوں میں سے ایک ہی خاندان کے مرنے والے تین افراد کو بے قصور اور ڈرائیور کو مشکوک قرار دیا ہے۔ اِس مشکوک میں تشکیک کا عنصر کتنا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اُس کا بھائی جو ڈلفن فورس میں ہے اُس پر دوبارہ تحقیق ہوگی کیونکہ اب وہ بھی مشکوک لگنا شروع ہوگیا ہے۔ اس سے متعلق پہلی تحقیق تو نا اہلی ثابت ہو گئی اب دیکھیں فورس کا حصہ ہونے والے کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ تحریر کا مقصد یہ ہے کہ بہتر گھنٹوں میں نشانِ عبرت بننے والے ایک ماہ بعد بھی سوالیہ نشان کے علاوہ کچھ نہ بن سکے۔ چھ اہلکار ریمانڈ پر ہیں۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ جس کا اردو ترجمہ ہے محکمہ انسدادِ دہشتگردی اور مخفف سی ٹی ڈی ہے جو کب تک ڈرامے کا تقاضا کر رہا ہے۔ اصل سوال بھی یہی ہے کہ حقیقت کیا ہے اور ڈرامہ کیا؟ اور جو بھی ہے کب تک ہوگا؟ کیا یہ راز بھی عیاں ہوگا کہ مارے گئے بے قصوروں اور مشکوک پر اندھا دھند فائرنگ کا حکم کس نے دیا تھا؟

 

install suchtv android app on google app store