مہنگائی پر قابو پانے میں تمام کوششں ناکام۔۔۔

مہنگائی پر قابو پانے کی تمام حکومتی کوششں ناکام ہو گئی۔ فائل فوٹو مہنگائی پر قابو پانے کی تمام حکومتی کوششں ناکام ہو گئی۔

مہنگائی پر قابو پانے کی تمام حکومتی کوششں ناکام ہو گئی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ بجلی کے نرخ میں ایک روپیہ 39پیسے فی یونٹ اضافے کے علاوہ ادارہ شماریات کے مطابق یوٹیلٹی اسٹوروں پر خوردنی تیل 110، گھی49روپے تک مزید مہنگا ہو گیا ہے۔ پٹرول کی قیمت فوری طور پر ساڑھے 10روپے فی لیٹر بڑھا دی گئی ہے۔ چینی کے نرخ بھی سو روپے فی کلو سے زیادہ تک جا پہنچنے اور شوگر مافیا کا بھی کچھ نہیں بگڑا۔ گندم اور آٹے کا  بھی یہی حال رہا۔ گزشتہ روز وزیراعظم نے ایک بار پھر چینی کی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ شوگر ملوں کی نگرانی کے لئے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ ناجائز منافع خوروں کو عوام کا دشمن قرار دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریاست ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ دوسری طرف پنجاب میں حکومت نے کسانوں کو گنے کی سابقہ مالی ادائیگیاں نہ کرنے والی شوگر ملوں کے خلاف کریک ڈائون کرتے ہوئے گرفتاریاں شروع کردی ہیں جسے شوگر مل ایسوسی ایشن کے سربراہ نے غیرقانونی اقدام قرار دیا ہے اور یہ سلسلہ بند نہ ہونے کی صورت میں یکم نومبر سے کرشنگ بند کردینے کا اعلان کیا ہے۔ ملک میں مسلسل جاری مہنگائی کا سبب کیا واقعی صرف ناجائز منافع خوری ہے یا اس کے حقیقی اسباب کچھ اور ہیں۔ بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل جیسی اشیا کے نرخ حکومت خود مسلسل بڑھاتی رہے تو تمام چیزوں کی لاگت پر اس کا منفی اثر مرتب ہونا ہی ہے۔ ملکی ضرورت کا سوچے بنا بغیر متعلقہ وفاقی وزارتوں نے چینی اور گندم کو بڑے پیمانے پر برآمد کردیا اور جب ملک میں قلت ہوئی تو مہنگے داموں درآمد کرنا پڑا جس کے نتیجے میں ان اشیا کے مقامی نرخوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ ایل این جی بھی درآمد کے معاہدے مناسب وقت پر نہ کرنے کی وجہ سے مہنگے داموں خریدنا پڑی۔ مہنگائی کا سبب ناجائز منافع خوری نہیں بلکہ اس میں ہماری معاشی مجبوریوں، عالمی حالات اور حکومتی پالیسیوں کا بھی نمایاں حصہ ہے۔ لہٰذا مہنگائی کے جن پر قابو پانے کا طریقہ یہ نہیں کہ سارا بوجھ عام آدمی پر منتقل کیا جاتا رہے جس کی کمر پہلے ہی توڑ رکھی ہے

install suchtv android app on google app store