کیا ہم قوم ہیں اور ایک ہیں ؟

کیا ہم قوم ہیں اور ایک ہیں ؟ فائل فوٹو کیا ہم قوم ہیں اور ایک ہیں ؟

گذشتہ دنوں ایک افطار پارٹی میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں موجود ہر شخص ایسے تیا رہوا تھا کہ جیسے یہ مقدس محفل نہیں بلکہ کوئی شادی بیاہ کی تقریب ہے ۔ کیا کجھور تھی تو کیا پھل فروٹ سب پر جیسے ہر کوئی جھپٹ رہا تھا ۔ اسی چھینا چھپٹی میں بہت سا رزق ضائع بھی ہو رہا تھا لیکن کسی کو کسی کی پروا نہیں تھی جو جس کے ہاتھ میں آرہا تھا اسی سے اپنی پلیٹیں لبا لب بھر رہا تھا ۔

دوسری طرف میزبان تھے وہ ایک طرف تو پریشان تھے دوسری طرف غرور سے ان کی گردن بھی تنی ہوئی تھی کہ ان کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ افطار ڈنر میں اتنی چیزیں افورڈ کر سکتے ہیں اور اس دعوت سے تمام حاضرین پر اپنی دھاک بٹھا سکتے ہیں ۔
افطار پارٹی تو مکمل ہو گئی لیکن وہاں رزق کی بے حرمتی دیکھ کر میری طبعیت مکدر ہو گئی ۔ میں اس سب صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ کیا ہم سب کو اشرف المخلوقات کہلائے جانے کا حق ہے یا ہمیں بھی جانوروں کی صف میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے ؟ ہم ایک قوم تو کیا ایک فرد نہیں بن سکے اور اب تک نہیں بن سکے ۔
رمضان آتا ہے تو ہم کھجوریں ، مرچ مسالے ، بیسن، دہی ، ٹماٹر سمیت مصلے اور قرآن پاک مہنگے کر دیتے ہیں ۔عید الفطر آتی ہے تو ہم سوٹ کی سلائی دگنی کر دیتے ہیں ، جوتے عام سے بھی ہوں ان کی قیمت بھی ہزار روپے سے کم نہیں ہوتی ۔ کھانے پینے کی اشیا بھی مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہیں ۔ عید الفطر کے دوماہ بعد عید قربان آتی ہے ، اس ماہ میں تو خوب پیسوں کی نمائش ہوتی ہے کہ کس نے خوبصورت اور مہنگا ترین جانور لیا ہے ، لیکن یہاں بھی ہم دغا بازی سے باز نہیں آتے ۔ عید آتے ہی قربانی کے جانور ،چھریاں ٹوکے مہنگے ہو جاتے ہیں ۔ حج کے موقع پر بھی مسلمان نہیں شرماتے ۔ احرام ہیں تو ان کی قیمتیں زیادہ ، آب زم زم رکھنے کے لئے کینٹر مہنگے ۔ اس سلسلے میں توجہیات یہ پیش کی جاتی ہیں کہ جناب اب تو آپ حاجی نمازی ہونے لگے ہیں ، تھوڑا بہت ہدیہ زیادہ دے دیں گے تو کیا ہو جائے گا ۔ اللہ تعالی برکت ہی دے گا آپ کو ۔
ہسپتالوں میں فری علاج کی بجائے ٹیسٹ مہنگے ، دوائیوں پر بھاری بھرکم ٹیکس ۔دوائیوں کی اتنی کم یابی اور اتنی زیادہ قیمت کہ بندہ اپنی بیماری بھول کر پیسوں کی فکر میں ہی پڑ جاتا ہے ۔ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کی جاتی ہے اور تو اور محرم میں تبرک کے نام پر بھی یہ کام جاری رہتا ہے ۔
نیاز بنوانے جائو تو یا تو دیگیں پکائوائو یا پھر مجلس کا اہتمام کرو ۔ غریب بندہ تو غم حسین علیہ السلام بھی نہیں منا سکتا ۔ اگر خلوص دل سے کوئی چھوٹی سی نیاز پکا کر دے دیں تو شرکا مجلس مجلس کو چھوڑ کر باتیں بنانے لگ جاتے ہیں کہ فلاں کے گھر میں یہ نیاز ملی اب آئیندہ اسکے گھر نہیں جاتے ۔محرم الحرام میں لوگوں کے فیشن ہی ختم ہونے میں نہیں آتے حالانکہ یہ ایام غم ہیں لیکن لوگ کالے لباس نئے خریدتے ہیں اور یہ چند کالی بھیڑیں پوری قوم شعیت کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں ۔
یعنی کہ عجیب ہی منافقت ہے کہ استغفر اللہ ۔ مر جائو تو پہلے قبروں پر ٹیکس دو ، جگہ خریدو اسکی رجسٹریشن کروائو ، گورکن کو منہ مانگی رقم دو ، کفن ، کافور او رباقی چیزیں جو لے لے کر مرنے والے کے ساتھ ساتھ اسکے لواحقین بھی سمجھو اتنا خرچہ کر کے مر ہی جاتے ہیں ۔ مردے کو دفن کرنے کے بعد چالیسواں کروں جمعراتیں کرو ، کھانے پکائو ۔ ہم سب کی زندگی میں کتنی بناوٹ ہے ۔ زندہ بندے کی قدر نہیں مرنے کے بعد عام قبر بھی مزار بنا دی جاتی ہے ۔
ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کو بات کرتا ہے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ بھی غلط ہو سکتا ہے ۔ میرا یہ ماننا ہے کہ دوسروں کو نصیحت سے پہلے بندہ خود تو سنبھل جائے ایک فرد درست ہو جائے پوری قوم سیدھی ہو جائے گی ۔

install suchtv android app on google app store