سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا فائل فوٹو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کرنے والا سپریم کورٹ آف پاکستان کا 6 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا۔ جسٹس سردار طارق مسعود فوجی عدالتیں غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر 6رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے۔

سماعت شروع ہوئی تو جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ہم بینچ پر اعتراضات کو پہلے سنیں گے۔ جواد ایس خواجہ کے وکیل نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ بینچ کی دوبارہ تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے۔

لاہور بار کے وکیل حامد خان نے کیس میں دلائل دینے کی کوشش کی جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم نے کیس سننا ہی نہیں تو دلائل نا دیں، ہم پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ میں کیس سے الگ ہو جاؤں۔

عدالت نے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بجھوا دیا۔ عدالت نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی لارجر بینچ تشکیل دے، ملٹری کورٹس کے سویلین کے ٹرائل جاری رکھنے کا حکم امتناع برقرار رہے گا۔

سپریم کورٹ کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل رہے گا، 3 رکنی ججز کمیٹی انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے لیے نیا لارجر بینچ تشکیل دے۔

عدالتِ عظمیٰ نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ، اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کی استدعا ہے کہ سماعت الیکشن کے بعد کی جائے۔

دسمبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔

گزشتہ برس 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے 9 مئی کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے پر گرفتار عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کا 6 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن ڈی 2 کی ذیلی شقیں ایک اور دو کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 59 (4) بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔

سپریم کورٹ کے 1-4 کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فوجی تحویل میں موجود تمام 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا۔

عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کے تمام ملزمان کے ٹرائل متعلقہ فوجداری عدالتوں میں ہوں گے اور سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ہونے والے کسی ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔

فیصلہ 1-4 کی اکثریت سے سنایا گیا تھا اور جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

اِس فیصلے کے خلاف نگران وفاقی حکومت، وزارت دفاع، وزارت قانون، نگران حکومتِ پنجاب، نگران حکومتِ خیبرپختونخوا، نگران حکومتِ بلوچستان سمیت 17 اپیلیں دائر کی گئی ہیں۔

17 نومبر کو نگران وفاقی حکومت اور وزارت دفاع نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

درخواستوں میں آرمی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

انٹراکورٹ اپیلوں میں مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا وہ ناقابل سماعت تھیں اور آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات کالعدم ہونے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

علاوہ ازیں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے بھی فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ چیلنج کر دیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ آرمی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

بعدازاں 21 نومبر کو نگران حکومتِ پنجاب نے بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دینے کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

9 دسمبر کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سپریم کورٹ میں 13 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر کردی گئی تھی۔

install suchtv android app on google app store