سیاسی رہنماؤں کو دھماکہ خیز مواد بھیجنے کی تحقیقات جاری

'ایف بی آئی' کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا ہے کہ معاملے کی مکمل تحقیقات کرکے ذمے داروں کا تعین ان کی اولین ترجیح ہے۔

امریکہ میں کئی ڈیمو کریٹ رہنماؤں کو ڈاک کے ذریعے دھماکہ خیز مواد کی ترسیل کے واقعات کی تحقیقات جاری ہیں جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ سیاسی رہنماؤں اور سابق حکومتی اہلکاروں کو دھماکہ خیز مواد کی ترسیل دراصل امریکہ کی جمہوریت پر حملے کے مترادف ہے۔

صدر نے یہ بات بدھ کی شب ریاست وسکونسن میں ری پبلکن امیدواروں کے ایک انتخابی جلسے سے خطاب میں کہی۔

صدر ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب وفاقی حکومت کے تفتیشی ادارے سابق صدر براک اوباما اور سابق صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن سمیت کئی مرکزی ڈیموکریٹ رہنماؤں کو بذریعہ ڈاک پائپ بم بھیجنے والے شخص کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بدھ کو جلسے سے اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ کسی کو بھی سیاسی مخالف کو ولن نہیں سمجھنا چاہیےاور یہ عمل اب رک جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری املاک برباد کرنا اور عوامی مقامات پر لوگوں کا گھیراؤ کرنا ٹھیک نہیں اور اس کے برعکس اپنے اختلافات دور کرنے کا صحیح اور پرامن طریقہ ووٹ کے حق کا استعمال کرنا ہے۔

صدر ٹرمپ خود بھی سرِ عام اپنے مخالفین کو کڑی اور ذاتی نوعیت کی تنقید کا نشانہ بنانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ لیکن بدھ کو جلسے میں انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ یہ سمجھ کر سلوک نہ کریں کہ ان میں کوئی اخلاقی کمی ہے۔

لیکن ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر صورتِ حال کا ذمہ دار ذرائع ابلاغ کو قرار دیا اور کہا کہ اسے اپنی مسلسل دشمنی اور منفی اور جھوٹے حملے روکنے ہوں گے۔

جلسے سے قبل بدھ کی دوپہر وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ڈیموکریٹ رہنماؤں کو بذریعہ ڈاک پائپ بموں کی ترسیل پر "سخت برہم اور ناخوش ہیں۔"

صدر کا کہنا تھا کہ امریکی شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ ان کی اولین ترجیح ہے۔

مزید کئی رہنماؤں کو پائپ بم موصول

سابق صدر اوباما اور سابق خاتونِ اول ہیلری کلنٹن کے علاوہ گھریلو ساختہ پائپ بم ڈاک کے ذریعے سابق اٹارنی جنرل، ایک ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس اور سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر کو بھی بھیجے گئے ہیں۔

ان تمام افراد میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام صدر ٹرمپ کے کڑے ناقد ہیں۔

ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹ رہنما نینسی پیلوسی اور سینیٹ میں ڈیموکریٹ اقلیتی رہنما چک شمر نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں صدر ٹرمپ پر ملک میں سیاسی اختلافات کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

کانگریس کے دونوں اعلیٰ ترین ڈیموکریٹ رہنماؤں نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ مسلسل اپنے الفاظ اور افعال سے امریکیوں کے مابین تقسیم پیدا کرتے آئے ہیں اور حالیہ واقعات اسی تقسیم کا نتیجہ ہیں۔

اس سے قبل بدھ کو سیکرٹ سروس نے اعلان کیا تھا کہ اس کے اہلکاروں نے نیویارک میں سابق صدر بل کلنٹن اور واشنگٹن ڈی سی میں سابق صدر براک اوباما کی رہائش گاہوں کو بھیجا گیا دھماکہ خیز مواد قبضے میں لے لیا ہے۔

اس اعلان کے کچھ ہی دیر بعد پولیس نے نیویارک میں واقع 'ٹائم وارنر سینٹر' کو ایک مشتبہ پیکٹ کی اطلاع پر خالی کرالیا تھا۔

مذکورہ عمارت میں 'سی این این' کے اسٹوڈیوز واقع ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مشتبہ پیکٹ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جان برینن کے نام بھیجا گیا تھا جو ایک معاصر نشریاتی ادارے 'ایم ایس این بی سی' سے بطور تجزیہ کار منسلک ہیں۔

پیکٹ سے بعد ازاں ویسا ہی پائپ بم برآمد ہوا تھا جیسا ہیلری کلنٹن اور براک اوباما کو بھیجا گیا تھا۔

امریکی ریاست فلوریڈا کی پولیس اور 'ایف بی آئی' کانگریس کی خاتون ڈیموکریٹ رکن ڈیبی ویزر مین شلٹز کے دفتر کے نزدیک سے برآمد ہونے والے ایک اور مشتبہ پیکٹ کی تحقیقات بھی کر رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق پیکٹ صدر اوباما کے دورمیں اٹارنی جنرل رہنے والے ایرک ہولڈر کو بھیجا گیا تھا لیکن پتا درست نہ ہونے کی وجہ سے خاتون رکنِ کانگریس کے دفتر پہنچ گیا تھا کیوں کہ اس پر بھیجنے والے کی جگہ رکنِ کانگریس کا نام درج تھا۔

بدھ کو بھیجے جانے والے تمام مشتبہ لفافوں پر بھیجنے والے کے نام کی جگہ خاتون رکنِ کانگریس ڈیبی ویزر مین کا نام ہی درج تھا۔

کیلی فورنیا سے منتخب ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس میکسن واٹرز کو بھی دو مشتبہ لفافے ارسال کیے گئے تھےجن میں سے ایک پر واشنگٹن ڈی سی میں واقع ان کے دفتر جب کہ دوسرے پر ان کے حلقۂ انتخاب کے دفتر کا پتا درج تھا۔ دونوں لفافے خاتون رکنِ کانگریس تک پہنچنے سے پہلے ہی پکڑ لیے گئے تھے۔

مشتبہ پیکٹس میں پائپ بم بھیجنے کا سلسلہ پیر کو شروع ہوا تھا جب ارب پتی مخیر تاجر اور ڈیموکریٹ پارٹی کے سرگرم حامی جارج سوروس کی رہائش گاہ کے باہر نصب میل باکس سے ایسا ہی پیکٹ برآمد ہوا تھا۔

'ایف بی آئی' کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا ہے کہ معاملے کی مکمل تحقیقات کرکے ذمے داروں کا تعین ان کی اولین ترجیح ہے۔

حالیہ واقعات ایسے وقت پیش آئے ہیں جب کہ امریکی کانگریس کے وسط مدتی انتخابات میں محض دو ہفتے رہ گئے ہیں۔ چھ نومبر کو ایوانِ نمائندگان کی تمام 435 جب کہ سینیٹ کی 100 میں سے 35 نشستوں پر انتخاب ہوگا۔

install suchtv android app on google app store