کئی سالوں تک تہ خانے میں قید لڑکی کی لرزہ خیز داستان

انوکھی کہانی فائل فوٹو انوکھی کہانی

دوپہر کا وقت تھا، سورج بادلوں میں چھپا تھا جبکہ ہلکی خشک سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ ایک ایمبولینس تیز رفتاری سے سڑکوں پر دوڑتی ہسپتال کے احاطے میں داخل ہوتی ہے۔ ایمبولینس میں موجود مریض کو ہسپتال لے جایا جاتا ہے جہاں ایمرجنسی کا ڈاکٹر اس کی حالت دیکھ کر گہری تشویش میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے سینیئرز کو مریض کی حالت دیکھنے بلاتا ہے اور وہ اس 19 سالہ بے ہوش لڑکی کی سفید پیلی رنگت اور اس کا لاغر کمزور بدن دیکھ کر پولیس سے رابطہ کرتے ہیں کیونکہ یہ وہ عام مریض نہیں جو روزانہ ہسپتال میں آیا کرتے ہیں۔

اسی اثنا میں ایک عمر رسیدہ شخص ہسپتال آتا ہے جو مبینہ طور پر کہتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں جو تحریر ہے وہ اس لڑکی کی والدہ نے لکھی ہے لیکن پولیس مطمئن نہیں ہوتی اور اس لڑکی کی والدہ کو ڈھونڈنے کی کوششوں کا آغاز کرتی ہے۔

لڑکی کو ہسپتال میں داخل ہوئے ایک ہفتہ گزر جاتا ہے اور ایک دن ہسپتال کا عملہ پولیس کو مطلع کرتا ہے کہ ایک مشکوک عورت 19 سالہ لڑکی سے ملنے آئی ہے۔

پولیس فوراً پہنچتی ہے اور عورت کو تحویل میں لےکر پوچھ گچھ کرتی ہے لیکن وہ کچھ بتانے پر آمادہ نہیں ہوتی۔

دباؤ ڈالنے پر وہ پولیس کے سامنے شرط رکھتی ہے کہ میں صرف اسی صورت میں سچ بتاؤں گی اگر مجھ سے وعدہ کیا جائے کہ زندگی بھر مجھے ’اس شخص‘ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پولیس شرط مان لیتی ہے اور پھر اگلے دو گھنٹے تک 42 سالہ عورت وہ ہولناک انکشافات کرتی ہے جنہیں جاننے کے بعد آپ زندگی بھر انہیں بھلا نہیں پائیں گے۔

یہ 1980ء دہائی کے اوائل کی بات ہے کہ جب آسٹریا کے شہر ایمسٹیٹن میں جوزف فرٹزل نامی انجینئر اپنے گھر کے نچلے حصے یعنی بیسمنٹ کو وسعت دینے کے لیے تعمیراتی کام میں مصروف تھا۔

جوزف ایک انتہائی نفیس اور خوش اخلاق شخص تھا جسے اپنے کام سے بہت محبت تھی اور اس کی بیوی روسمیری اور اس کے سات بچے بھی اس سے بہت خوش تھے سوائے ان کی چوتھی اولاد الزبتھ فرٹزل، جو اپنے باپ کے گھناؤنے چہرے سے واقف تھی۔

اگست 1984ء کو جوزف نے اپنی بیٹی الزبتھ فرٹزل سے کہا کہ وہ بیسمنٹ کے دروازے کو ٹھیک کرنے میں اس کی مدد کرے۔ 18 سالہ لڑکی اپنے باپ کے ساتھ دروازہ پکڑے کھڑی ہوتی ہے کہ اچانک اس کا باپ اسے اندر دھکیل کر باہر سے دروازہ بند کردیتا ہے اور یہاں سے فرٹزل کیس کا لرزہ خیز آغاز ہوتا ہے۔

بند دروازے کے پیچھے الزبتھ خوب چیختی چلاتی ہے لیکن اس کی آواز کسی کو سنائی نہیں دی، وہیں اوپر اس کی والدہ روسمیری اپنی بیٹی کی اچانک گمشدگی سے شدید پریشان ہوتی ہے اور اپنے شوہر کے ہمراہ پولیس میں رپورٹ درج کروانے جاتی ہے۔

پولیس ان سے بھی تفتیش کرتی ہے، روسمیری کچھ نہیں جانتی تھی کہ اس کی بیٹی کہاں ہے البتہ جوزف سب جاننے کے باوجود پولیس کی تفتیش سے باآسانی کلین چٹ حاصل کرلیتا ہے۔

ایک ماہ بعد جوزف پولیس کو ایک نوٹ دیتا ہے جو بظاہر اس کی بیٹی الزبتھ نے لکھا ہوتا ہے نوٹ میں لکھا تھا کہ میں الزبتھ اپنی فیملی کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور ساتھ ہی اس نے نوٹ میں اپنے والدین کو دھمکی دی تھی کہ اسے تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں ورنہ وہ یہ ملک چھوڑ دے گی۔ روسمیری مطمئن نہیں ہوتی لیکن وہ ہمت ہار دیتی ہے جبکہ پولیس حکام بھی چند ماہ بعد اس کی تلاش بند کردیتے ہیں۔

دوسری جانب گھر میں بنے خفیہ تہ خانے میں الزبتھ فرٹزل گھٹ گھٹ کر زندگی کے دن گزار رہی تھی۔

یہ تہ خانہ جوزف فرٹزل نے مکمل منصوبہ بندی سے بنایا تھا جس میں دو بیڈرومز، ایک باتھ روم، کچن اور لیونگ ایریا بھی موجود تھا اور ساتھ ہی ایک ساؤنڈ پروف ایریا تھا جو باہر آوازیں جانے نہیں دیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ گھر میں کسی کو اس کی چیخوں کی آواز نہیں سنائی دی۔

شروع شروع میں اس کا باپ جوزف اسے زبانی استحصال کا نشانہ بناتا تھا لیکن قید میں دو ماہ گزر جانے کے بعد ایک دن جوزف نے اس کا ریپ کیا اور ایسا آنے والے کئی دنوں تک ہوتا رہا۔

الزبتھ فرٹزل جب 11 سال کی تھی تو تب سے جوزف اسے ہراساں کرتا تھا، اسی وجہ سے ایک بار وہ گھر سے فرار ہوکر آسٹریا کے شہر ویانا چلی گئی تھی لیکن چونکہ وہ بالغ نہیں تھی تو پولیس اسے تلاش کرکے واپس گھر لے آئی تھی۔

قید اور اپنے ہی باپ کی جانب سے ریپ کا نشانہ بنائے جانے کے دو سال بعد نومبر 1986ء میں الزبتھ فرٹزل حاملہ ہوگئی لیکن بعد ازاں اس کا اسقاطِِ حمل ہوگیا۔ دو سال بعد 30 اگست 1988ء کو اس کی بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام الزبتھ نے کرسٹن رکھا۔

چونکہ وہ قید تھی اس لیے اس نے تنہا کسی کی مدد کے بغیر بیٹی کو جنم دیا۔ اس کے بعد یکم فروری 1990ء کو اس کا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اسٹیفن رکھا۔

29 اگست 1992ء کو ایک اور بیٹی لیسا پیدا ہوئی جسے تہ خانے میں پالنا مشکل ہورہا تھا کیونکہ وہ بچی کسی بیماری کی وجہ سے بہت رویا کرتی تھی۔ 9 ماہ کی عمر میں جوزف نے لیسا کو ٹوکری میں ڈالا اور اوپر اپنے گھر کے دروازے کی چوکھٹ پر رکھ دیا، ساتھ ہی الزبتھ کی رائٹنگ میں ایک خط بھی چھوڑا جس میں لکھا تھا کہ وہ اس بچی کو پال نہیں سکتی اس لیے اسے اس کے نانا نانی کے پاس چھوڑ رہی ہے۔

روسمیری کو لگا واقعی یہ خط الزبتھ نے لکھا ہے اور اسی ملک میں وہ ان سے دور آزاد زندگی گزارنا چاہتی ہے لہٰذا روسمیری اور جوزف نے بچی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔

تہ خانے میں موجود بچے بڑے ہورہے تھے جن کے لیے یہ جگہ کم پڑ رہی تھی لیکن باہر سے کسی کو کام کے لیے بلایا نہیں جاسکتا تھا تو جوزف نے الزبتھ اور بچوں کو ہاتھ سے کھدائی کرنے پر مجبور کیا اور یوں تہ خانے کو 580 اسکوائر فٹ تک وسعت دی گئی۔

اسی اثنا میں 26 فروری 1994ء کو الزبتھ نے چوتھے بچے کو جنم دیا۔ بچی کا نام مونیکا تھا جسے جوزف نے 10 ماہ کی عمر میں باسکٹ میں ایک نوٹ کے ساتھ فرٹزل ہاؤس کی چوکھٹ پر رکھ دیا۔

لیکن اس بار روسمیری کو الزبتھ کی جانب سے کال بھی موصول ہوئی جوکہ بہ ظاہر جوزف نے الزبتھ کی آواز ریکارڈ کرکے روسمیری کو کی تھی۔

28 اپریل 1996ء کو الزبتھ نے جڑواں بچوں کو جنم دیا جن میں سے ایک پیدائش کے تین دن بعد مر گیا جبکہ دوسرے بیٹے الیگزینڈر کو مونیکا اور لیسا کی طرح جوزف نے اپنے گھر کی چوکھٹ پر رکھ دیا۔

مردہ بچے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جوزف نے اس کی لاش کو اپنے گھر کے بیک یارڈ میں جلادیا تھا لیکن یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے۔

16 دسمبر 2002ء کو الزبتھ ساتویں بچے کو جنم دیتی ہے جس کا نام اس نے فیلکس رکھا۔ جوزف اور روسمیری مزید بچوں کی پرورش نہیں کرسکتے تھے اس لیے جوزف نے فیلکس کو الزبتھ اور دو بیٹوں کے ساتھ تہ خانے میں ہی رکھا۔

 

install suchtv android app on google app store