پاناما عملدرآمد کیس: حکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ فائل فوٹو سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے پاناما عملدرآمد کیس میں جے آئی ٹی کی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ میڈیا اور حکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں۔

جسٹس اعجازافضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی خصوصی بنچ پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کررہا ہے، سماعت کے دوران تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی کی مخصوص چیزیں لیک کی جا رہی ہیں، سپریم کورٹ کی کارروائی جاری ہے لیکن ایک خاص انگریزی اخبار میں اس سے متعلق شہہ سرخیاں لگ رہی ہیں، آج ایک اخبار نے تو فیصلہ بھی سنا دیا، اس خبر سے غلط عوامی تاثر جا رہا ہے، اخبار کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

مزید جانئیے: ایف بی آر اور ایس ای سی پی نے جے آئی ٹی کے الزامات مسترد کردئیے

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ میں نے بھی اخبار میں خبر پڑھی ہے، لگتا ہے یہ آئی سی جے کا فیصلہ ہے، ہمیں ایسی خبروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ صرف مخصوص نہیں اب تو ہر چیز لیک ہو رہی ہے، ہمیں پتہ ہے اس کا مقصد کیا ہے، جے آئی ٹی نے ہمیں مسائل کا بتایا ہے، بہت سنگین قسم کے الزامات عائد کئے گئے ہیں ، ہم مناسب حکم جاری کریں گے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا الزام جرم نہیں ہے، ایف آئی آر بھی الزام پر درج کی جاتی ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایس ای سی پی نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے۔ دفعہ 486 اور دیگر دفعات کے تحت ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی کا جانبدار رویہ نظرانداز کیا جارہا ہے: مصدق ملک

جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ حقائق جانے بغیر بہت کچھ کہا گیا، پہلے بھی کہا تھا کہ آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے ہمیں پرواہ نہیں، کوئی کچھ بھی کہتا رہے ہمیں اس کی پرواہ نہیں لیکن خاموش تماشائی نہیں بنیں گے ، چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات ہیں، جے آئی ٹی نے ایس ای سی پی پر ریکارڈ ٹیمپرنگ کا الزام لگایا، ہم آپ سے کافی مایوس ہوئے ہیں۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ آپ نے بطور اٹارنی جنرل کوئی ایکشن لیا ہوگا لیکن آپ نے سیدھا ہی کہہ دیا کہ بادی النظر میں الزامات غلط ہیں۔

جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے آئی بی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ہراساں کرتے ہیں اور آئی بی نے الزامات کی سیدھے سیدھے تردید کی ہے، اس کے علاوہ ڈی جی آئی بی نے ایک شاندار خط بھی لکھا ہے۔ کیا آئی بی والے ہمارا ڈیٹا بھی جمع کرتے ہیں، کیسے مان لوں کہ میری مانیٹرنگ نہیں ہوتی۔ آئی بی نے اعتراف جرم کرلیا ہے، آئی بی کا کام ریاست کے لئے ہونا چاہیے کسی کی ذات کے لیے نہیں۔ اٹارنی جنرل یہ کیا ہو رہا ہے، کیا آپ ہمیں سمجھائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی ارکان کے کوائف اکھٹے کئے: ڈائریکٹرجنرل آئی بی

جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ وزیر اعظم یا کسی اور کے نہیں وفاق کے نمائندے ہیں، آئی بی کس اختیار کے تحت ہرمعاملے میں اپنی ناک پھنسا رہی ہے۔ یہ سیدھا ہراساں کرنا ہی ہے ،آئی بی کو کس نے اختیار دیا کہ جے آئی ٹی ارکان کے گھر والوں کو ہراساں کرے۔ کیا آئی بی اور کیا ایس ای سی پی، سب رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے معاملہ کی تحقیقات کر سکتا ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آئی بی کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گا؟

install suchtv android app on google app store