پہلی جنگ عظیم میں شریک پاکستانی کی کہانی اور وکٹوریہ کراس

پہلی جنگ عظیم میں برٹش انڈیا سے لاکھوں سپاہی شریک ہوئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا، پاکستان میں بھی کئی افراد کو برطانیہ کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’وکٹوریہ کراس‘ سے نوازاگیا جن میں خیبرایجنسی کی وادی تیراہ سے تعلق رکھنے والے صوبیدار میر دست خان آفریدی بھی شامل تھے جن کی وردی دہشتگردانہ حملے میں جل گئی جبکہ وکٹوریہ کراس بھی چھننے کا خدشہ ہے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق میر دست خان آفریدی کی رجمنٹ کو بیلجیم محاذ پہ تعینات کیا گیا جہاں 26 اپریل 1915ء کو جرمن فوجوں سے گھمسان کا معرکہ ہوا لیکن میر دست خان یونٹ کے سب افسروں کی ہلاکت کے باوجود نہ صرف ڈٹے رہے بلکہ 8 زخمی ساتھیوں کو گولوں کی بارش سے بچاتے ہوئے پیچھے لانے میں بھی کامیاب ہوئے۔

میر دست خان کا انتقال 24 جون 1950ء پشاور میں ہوا اور وہیں دفن ہوئے لیکن ورثااُن کے گھر کی بھی حفاظت نہ کر سکے جو میر دست خان نے بہت ارمانوں سے بنایا ہو گا۔ اس گھر سے پڑے نئے حجرے میں کچھ نشانیاں، یادیں اور کتابی تذکرے ضرور سلامت ہیں۔

میر دست خان کے پوتے میر نواز خان کا کہنا تھا کہ دادا کے انتقال کے بعد کوئی رابطہ نہیں اور پاکستان آرمی بھی ہمارے خاندان کو کسی بھی فنکشن میں مدعو نہیں کرتی ، بعض لوگ ڈراتے دھمکاتے ہیں کہ آپ لوگوں کو برطانوی راج سے عمارتیں اور زمین ملی ہے ، اِسے واپس کردیں ورنہ ضبط کرلیں گے۔

میرنواز خان نے بتایا کہ مارچ 2013ء میں ہونیوالے دہشتگردانہ حملے میں میر دست خان کے ہاتھ سے بنا گھر جلا دیا گیاجس کے نتیجے میں گھر میں موجود تصویریں اور وردی بھی جل گئی تاہم وکٹوریہ کراس چھپا کر رکھا ہے اور ایک جگہ ایسی ہے جہاں وکٹوریہ کراس کی حفاظت ہو سکتی ہے۔

پاک آرمی میوزیم کے ڈائریکٹر بریگیڈئیر عدنان سمیع نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ میردست خان کے لواحقین وکٹوریہ کراس آرمی میوزیم کے ساتھ شئیر کریں اور امانت کے طور پر میوزیم کے اندر رکھیں اور اس کی تمام تر سیکیورٹی کی ذمہ داری پاک فوج لے گی۔

پاک آرمی میوزیم میں کئی بہادرسپاہیوں کے مجسمے آج بھی موجود ہیں لیکن کسی کے لواحقین نے ابھی تک وکٹوریہ کراس جمع نہیں کرایا۔

install suchtv android app on google app store