افغان حکومت اور طالبان مذاکرات میں اہم پیشرفت، ابتدائی معاہدے کا اعلان

افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے امن مذاکرات کے حوالے سے ابتدائی معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے۔ فائل فوٹو افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے امن مذاکرات کے حوالے سے ابتدائی معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے۔

افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے امن مذاکرات کے حوالے سے ابتدائی معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے۔

یہ فریقین کے درمیان 19 سالہ جنگ میں پہلا تحریری معاہدہ ہے جسے اقوام متحدہ اور امریکا نے خوش آئند قرار دیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق معاہدے سے مزید بات چیت کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور اسے اہم پیشرفت قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اس سے مذاکرات کار سیز فائر سمیت مزید ٹھوس مسائل پر آگے بڑھ سکیں گے۔

افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن نادر نادری نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ 'تمہید سمیت مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اب مذاکرات کا آغاز ایجنڈے سے ہوگا'۔

طالبان کے ترجمان نے بھی ٹوئٹر پر ابتدائی معاہدہ ہونے کی تصدیق کی۔

یہ ابتدائی معاہدہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں کئی ماہ کی بات چیت کے بعد سامنے آیا ہے جسے امریکا کی بھی حمایت حاصل تھی، تاہم دونوں فریقین سب بھی ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں ہیں اور طالبان کی جانب سے افغان حکومت کی فورسز پر مسلسل حملے کیے جارہے ہیں۔

افغان مصالحتی عمل کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹ میں کہا کہ فریقین نے تین صفحات کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے، جس میں سیاسی روڈ میپ اور جامع سیز فائر کے لیے مذاکرات کے حوالے سے طریقہ کار اور قواعد و ضوابط موجود ہیں۔

طالبان نے مذاکرات کے ابتدائی مراحل میں مغربی ممالک اور عالمی اداروں کے مطالبے کے باوجود سیز فائر پر اتفاق سے انکار کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ایسا تب ہوگا جب مذاکرات کو آگے بڑھانے کے طریقہ کار پر اتفاق کرلیا جائے گا۔

خلیل زاد نے کہا کہ 'معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکراتی فریقین مشکل مسائل پر بھی اتفاق کر سکتے ہیں'۔

واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے معاہدے کے مطابق غیر ملکی افواج کو مئی 2021 تک افغانستان سے نکلنا ہوگا جبکہ اس کے بدلے طالبان کی طرف سے حملے نہ کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تنقید کے باوجود افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے لیے جلدی میں نظر آتے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے کرسمس تک تمام امریکی فوجیوں کو واپس ملک میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے جنوری تک افغانستان سے مزید 2 ہزار فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا، تاہم ڈھائی ہزار اہلکار اس کے بعد بھی وہاں تعینات رہیں گے۔

دو روز قبل جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس نے نیٹو کو فوجیوں کے قبل از وقت انخلا کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی ڈیبورہ لیونز نے ٹوئٹر پر اس 'مثبت پیشرفت' کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیشرفت اس امن کے لیے سنگ میل ثابت ہونی چاہیے جو تمام افغانی چاہتے ہیں۔

install suchtv android app on google app store