چین میں کورونا وائرس سے اب تک کتنی ہوئی ہلاکتیں؟ جان کر ہر کوئی اداس

چین میں خطرناک کورونا وائرس سے ہلاکتیں 1380 تک پہنچ چکی ہیں فائل فوٹو چین میں خطرناک کورونا وائرس سے ہلاکتیں 1380 تک پہنچ چکی ہیں

چین میں خطرناک کورونا وائرس سے ہلاکتیں 1380 تک پہنچ چکی ہیں، جہاں امریکا نے چین پر اس بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں شفافیت کی کمی کا الزام عائد کردیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چین میں اب تک اس وائرس سے 64 ہزار افراد متاثر ہو چکے ہیں اور تشخیص کے طریقہ کار میں تبدیلی کے بعد گزشتہ دو دنوں کے دوران وائرس کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

نیشنل ہیلتھ کمیشن نے اعدادوشمار میں غلطی کا انکشاف کرتے ہوئے صوبہ ہوبے میں مرنے والے 108 افراد کو اعدادوشمار سے نکال دیا ہے کیونکہ انہیں دو مرتبہ شمار کرلیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود جمعہ کو ہلاکتوں کی تعداد 1380 تک پہنچ گئی ہے۔

چین میں مسلسل رپورٹ ہونے والے کیسز کے باعث عالمی سطح پر بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اور چند نئے کیسز منظر عام پر آنے کے بعد ویتنام نے چند گاؤں مکمل طور پر بند کر دیے ہیں اور جمعرات کو جاپان میں ایک ہلاکت ہوئی۔

خیال رہے کہ مذکورہ ہلاکت کے بعد جاپان دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں چین سے باہر کورونا وائرس کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئیں، اس سے قبل فلپائن اور ہانگ کانگ میں بھی کورونا وائرس سے ایک، ایک شخص کی ہلاکت سامنے آئی تھی۔

دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک نے اپنے ملک کی حدود میں 100 سے زائد کیسز رپورٹ ہونے کی تصدیق کردی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے وائرس سے نمٹنے کے لیے چین کی جانب سے کی گئی کاوشوں کو سراہا گیا ہے لیکن وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ چین کو اس بارے میں مزید معلومات فراہم کرنی چاہیئیں۔

نیشنل اکنامک کونسل کے ڈائریکٹر لیری کڈلو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مایوسی ہوئی کہ ہمیں دعوت نہیں دی گئی جبکہ چینی حکام کی جانب سے اس معاملاے میں شفافیت کی کمی بھی مایوس کن ہے۔

کڈلو نے کہا کہ چینی صدر ژی جن پنگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ امریکی پیشکش قبول کر لیں گے لیکن انہوں نے ہمیں مدد ہی نہیں کرنے دی۔

تاہم کڈلو کے بیان کے برعکس امریکی صدر نے چین پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ایک ریڈیو سے گفتگو میں کہا کہ چین کے صدر وائرس سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں، امریکا ان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور بہت سے افراد کو بھیج رہا ہے۔

اس وائرس کا مرکز تصور کیے جانے والے صوبہ ہوبے میں جمعرات کو یہ بحران اس وقت شدید تر ہوتا ہوا محسوس ہوا، جب ماہرین نے اس مرض کی تشخیص کے لیے لوگوں کے پھیپھڑوں کا بھی معائنہ کیا اور جانچ کے اس نئے طریقہ کار کے بعد ہوبے میں ایک دن میں مریضوں کی تعداد میں یکدم 15ہزار کا اضافہ ہو گیا تھا۔

یاد رہے کہ کورونا وائرس کا پہلا کیس دسمبر میں صوبہ ہوبے کے دارالحکومت ووہان سے سامنے آیا تھا۔

تاہم عالمی ادارہ صحت نے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کے باوجود صورتحال میں واضح تبدیلی کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک دن کیسز میں تیزی سے اضافہ صورتحال میں تبدیلی کی جانب اشارہ نہیں کرتا اور اکثر کیسز کئی ہفتوں پہلے کے ہیں۔

وائرس کی جانچ کے طریقہ کار میں تبدیلی کے بعد لیبارٹری ٹیسٹ کا انتظار کرنے کے بجائے مریض کا جلد علاج ممکن ہو سکے گا۔

جمعہ کو ہوبے ہیلتھ کمیشن نے بتایا کہ کورونا وائرس سے مزید 116 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ مزید 4 ہزار 800 افراد کے وائرس کا شکار ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جن میں سے 3 ہزار میں جانچ کے نئے طریقہ کار سے وائرس کی طبی تشخیص ہوئی۔

بیجنگ چاؤ ینگ ہسپتال کے نائب صدر تونگ زاؤ ہوئی نے کہا کہ شک کا فائدہ دے کر کسی کو چھوڑنے کے بجائے مریضوں کی طبی تشخیص اور انہیں ہسپتال میں داخل کرنا بہتر ہے۔

نیشنل ہیلتھ کمیشن نے چین کے دیگر علاقوں میں مزید پانچ اموات اور 217 نئے کیسز کا انکشاف کیا ہے جہاں صوبے سے باہر مریضوں کی تعداد میں مسلسل 10سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

حکام نے صوبہ ہوبے میں کم از کم ساڑھے پانچ کروڑ افراد کو قرنطینہ کر کے رکھا ہوا ہے تاکہ وائرس کو پھیلاؤ سے روکا جا سکے جبکہ رواں ہفتے ہوبے کے چند شہروں میں پابندیاں مزید سخت کردی گئی ہیں جس سے وہ جنگ زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ بحران سے نمٹنے میں ناکامی کے باعث چین پر ہونے والی تنقید کے بعد ہوبے میں کمیونسٹ پارٹی کے دو سینئر عہدیداروں کو برطرف کر کے سیکیورٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے دو سینئر افراد کا ان کی جگہ تقرر کردیا تھا۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

install suchtv android app on google app store