ممبر کینیڈین پارلیمینٹ رمیش سنگھا نے پاکستان اور بھارت تعلقات کے بارے میں اچھوتی بات کر دی

  • اپ ڈیٹ:
کینیڈین پارلیمینٹ  ممبر رمیش سنگھا فائل فوٹو کینیڈین پارلیمینٹ ممبر رمیش سنگھا

کینیڈین پارلیمینٹ کے ممبر رمیش سنگھا نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک اپنے عوام کے مفاد میں مسائل کا حل نکالیں اور امن و محبت سے رہیں، عمران خان کی جانب سے دورہ امریکہ کے دوران مسائل کے حل کی بات کرنا بہت خوش آئند ہے۔

رمیش سنگھا پاکستان کے شہر اوکاڑہ میں پیدا ہوئے اور صرف ایک سال کے تھے کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا اور وہ بھی اپنے خاندان کیساتھ بھارت منتقل ہو گئے جہاں وہ جالندھر میں رہے اور انڈین ائیرفورس میں نوکری کے دوران مختلف اوقات میں تقریباً پورے بھارت میں ہی تعینات رہے۔

انہوں نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم خوشگوار حل چاہتے ہیں اور میری خواہش ہے کہ پیار کا رشتہ بنتا رہے اور ہر ایک کو خوشی سے جینے کا پورا حق ملے۔ ایسی خوشی جو بھائی کو بھائی سے، خاندان کو خاندان سے، پڑوسی کو پڑوسی سے اور کسی ملک کو دوسرے ملک سے ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے بھارت اور پاکستان کافی دیر سے تعلقات اچھے نہیں بنے، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سے قطع نظر تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ کوشش ہی ایک ایسا ’اوزار‘ ہے جس کے ذریعے تعلقات بہتری کی جانب لے جائے جا سکتے ہیں اور ایسا حل نکالا جائے جس سے سب کا بھلا ہو۔

انہوں نے کہا کہ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں اوکاڑہ میں پیدا ہوا، پھر جالندھر میں رہا اور انڈین ائیرفورس میں نوکری کے دوران سارے ہندوستان میں رہا اور گزشتہ 25 سال سے یہاں کینیڈا میں بیٹھا ہوں اور اس ملک کی خدمت کر رہا ہوں کیونکہ یہ میرا ملک ہے اور یہاں میری جان ہے، میرا سب کچھ ہے لیکن سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم پیچھا نہیں چھوڑتے، پیار سب کے ساتھ ہوتا ہے، ہمارے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا نعرہ ہے کہ سب کیساتھ خوشگوار تعلقات رکھیں، اختلافات کہاں نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کیساتھ اختلافات نہ ہوں تو وہ زندگی نہیں لیکن اختلافات ہونے کے باوجود بھی ہم مل جل کر اور ہنسی خوشی رہ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت، امریکہ اور کینیڈا کے درمیان بھی بڑے بڑے اختلافات ہوئے لیکن سب بیٹھ کر حل کر لئے گئے، میں یہ کہتا ہوں کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کچھ نہ کر سکے تو مجھے بلا لیں، میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوں کیونکہ میں پاکستانی بھائیوں کو بھی جانتا ہوں اور بھارت کو بھی اچھی طرح جانتا ہوں، میں دونوں کو یہ دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور ہمارے ساتھ کام کریں، ہم آپ کے مسائل حل کرنے میں مدد کریں گے، آپ اپنے لوگوں کیلئے حکمرانی ظاہر کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ تو کریں، معاملات کا آغاز ہی کر دیں اور پھر سب کچھ آہستہ آہستہ ہو جائے گا۔ میری خواہش ہے کہ وہاں ایک خوشی کا ماحول بنے اور بھائی بندی ہو، دونوں ممالک کے درمیان جتنی تجارت ہو سکے کی جائے، عمران خان کا اچھا اقدام ہے جو انہوں نے امریکہ میں بات کی اور امید ہے کہ وہ دیگر جگہوں پر بھی کریں گے جبکہ نریندر مودی بھی کریں گے اور یوں مل جل کر مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں کینیڈا میں رہنے والی پاکستانی اور بھارتی کمیونٹی پر فخر کرتا ہوں جنہوں نے کینیڈا کو اوپر لے جانے کیلئے بہت محنت کی ہے، جسٹن ٹروڈو کا نعرہ ہے کہ ہم اپنے اختلافات کی وجہ سے مضبوط ہیں، الگ مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ذات پات بھی الگ ہے لیکن جب اکٹھے ہو کر بیٹھتے ہیں تو اکٹھے رہتے ہیں، ایک بات کیلئے چلتے ہیں، ہمیں آزادی اور امن چاہئے اور امن کیلئے ہی کام کرتے ہیں تو ہمارا کینیڈا مضبوط ہے۔ رمیش سنگھا نے کہا کہ جب یہاں پاکستانی اور بھارتی اکٹھے ہو کر آواز بلند کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہاں بھی اثر ہو گا اور حکمران مسائل کے حل کیلئے آگے بڑھیں گے کیونکہ حکمرانوں نے ہی کرنا ہے عوام تو ان کے ساتھ چلے گی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے اسلام آباد جانے کا موقع ملا اور میں وہاں 11 روز رہا جو نہایت شاندار تجربہ تھا جس دوران وہاں کی حکومت اور لوگوں کے بارے میں جاننے کو بہت کچھ ملا، ایسے ہی بھارت میں بھی آفیشل طور پر تین بار جا چکا ہوں، ویسے بھی میں وہاں جاتا رہتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ نعرے بازی ہے اور اپنے اپنے موقف ہیں جس وجہ سے دونوں کھینچا تانی کرتے ہیں، اگر دونوں ممالک دل صاف کر کے چلیں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ امن کے بغیر کچھ بھی نہیں چلے گا، عوام کے مفاد کیلئے آپسی تال میل کیساتھ رہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں ایک سال کا تھا جب تقسیم ہوئی اور ہم بھارت آ گئے لیکن جب بھی باتیں ہوتی ہیں اور پرانی کتابیں پڑھتے ہیں یا بڑے بزرگ پرانے وقت کے بارے میں بتاتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم یہاں آ چکے تھے تو ہمارے دادا نے ہمیں سب سے پہلے اردو زبان سکھائی کیونکہ وہ کہتے تھے کہ اردو بہت خوبصورت زبان ہے، میرے والد کی عمر 100 سال سے زائد ہو چکی ہے لیکن آج بھی انہیں پاکستان جانے کا کہیں تو وہ فوراً تیار ہو جائیں گے کیونکہ دل وہاں ہیں، ان جذبات کی قدر کرنا شروع کر دیں گے تو معاملات بھی حل ہو جائیں گے۔

انہوں نے دورہ پاکستان سے متعلق اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ چونکہ ہم ایک وفد کیساتھ تھے لہٰذا سیکیورٹی بھی کافی سخت تھی لیکن وہاں پہنچ کر محسوس ہوا کہ سیکیورٹی کی اتنی ضرورت نہیں تھی مگر ایک پروٹوکول تھا تو اس کیساتھ رہنا پڑا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہائی کمیشن میں ہی ڈنر رکھا گیا اور میں نے وہاں تقریر کے دوران بتایا کہ میری پیدائش اوکاڑہ کی ہے تو اس کے بعد ہائی کمیشن کا پورا عملہ ایسے ملتا تھا جیسے انہیں کوئی گمشدہ چیز واپس مل گئی ہو۔

 

install suchtv android app on google app store