جولین اسانج کے والد کا آسٹریلیا کی حکومت سے بیٹے کی واپسی کا مطالبہ

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج فائل فوٹو وکی لیکس کے بانی جولین اسانج

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے والد نے لندن میں گرفتاری کے بعد اپنے بیٹے کی حالت دیکھنے کے بعد آسٹریلیا کی حکومت سے سے اپنے بیٹے کو واپس لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

جولین اسانج کے والد نے میلبورن سنڈے ہیرالڈ سن کو بتایا کہ ’ وزارت امور خارجہ اور وزیراعظم کو انہیں واپس لانے کے لیےواضح حکمت عملی اختیار کرنا چاہیے‘۔

2012 میں لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں جولین اسانج کے سیاسی پناہ لینے کے بعد ان کے والد ہر سال کرسمس کے موقع پر اپنے بیٹے سے ملاقات کرتے تھے۔

جان شپٹن نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر حیران ہوگئے تھے جب انہیں سفارت خانے سے گرفتار کیا گیا۔

جولین اسانج کے والد نے کہا تھا کہ ’ اسے سب کے اطمینان کے لیے آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے، ایک ملاقات میں سینیٹر اور امور خارجہ کے عہدیدار کے درمیان انہیں آسٹریلیا کی تحویل میں دینے سے متعلق بات چیت ہوئی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ میں نے اسے دیکھا، جس طریقے پولیس اہلکار انہیں گھسیٹ کر لے کر گئے وہ ٹھیک نہیں تھے، میں 74 سال کا ہوں اور وہ 47 کے میں ان سے بہتر دکھائی دیتا ہوں، یہ ایک دھچکا ہے‘۔

جولین اسانج کے والد نے کہا کہ وہ کئی مہینوں سے وہ ایک انتہائی درجے کی سیکیورٹی میں قید ہے، جہاں کیمرے ان کے ہر قدم پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے 3 روز قبل کہا تھا کہ جولین اسانج کو آسٹریلیا میں کوئی خاص رعایت نہیں ملے گی۔

خیال رہے کہ 11 اپریل کو وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو 7 سال کی طویل سیاسی پناہ گزارنے کے بعد برطانیہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

وکی لیکس کے بانی جنسی زیادتی کیس میں سوئڈن حوالگی سے بچنے کے لیے 7 سال سے لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے، تاہم ان کی سیاسی پناہ ختم کرنے کے اعلان پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

واضح رہے کہ نومبر 2010 میں سوئڈن نے جولین اسانج کے بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، اس سے قبل ان سے جنسی ہراساں اور ریپ کے الزامات پر سوالات کیے گئے تھے، تاہم انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خفیہ امریکی دستاویزات کو شائع کرنے پر انہیں سوئڈن سے امریکا کے حوالے کردیا جائے گا۔

بعد ازاں دسمبر 2010 میں جولین اسانج نے برطانوی پولیس کے سامنے سرنڈر کیا تھا لیکن وہ 10 روز کی ضمانت پر رہا ہوگئے تھے، تاہم حوالگی کی کارروائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ضمانت کی خلاف ورزی کی تھی اور فرار ہوگئے تھے۔

جس کے بعد اگست 2012 میں ایکواڈور کی جانب سے انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور وہ اس کے بعد سے وہ لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے۔

install suchtv android app on google app store