سعودی عرب میں زیرحراست خواتین سماجی رضاکاروں کی پہلی بار عدالت میں پیشی

سعودی عرب میں زیرحراست خواتین سماجی رضاکاروں کی پہلی بار عدالت میں پیشی فائل فوٹو سعودی عرب میں زیرحراست خواتین سماجی رضاکاروں کی پہلی بار عدالت میں پیشی

سعودی عرب میں حکام نے ایک برس سے زیرحراست 10 خواتین سماجی رضاکاروں کو پہلی مرتبہ عدالت میں پیش کردیا۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کرمنل کورٹ میں پیش کی گئی 10 سماجی رضاکاروں میں لجین الھذلول، خاتون الفسی، عزیزہ الیوسف اور ایمن النفجان بھی شامل تھیں۔

اس حوالے سے عدالتی صدر ابراہیم السیریٰ نے بتایا کہ ’زیرحراست تمام ملزمان نے پہلی مرتبہ اپنے خلاف عائد کردہ الزامات سنے‘۔

سماجی رضاروں کے اہلخانہ کو کورٹ میں داخلے کی اجازت دی گئی تاہم رپورٹرز اور مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے سفیروں پر پابندی تھی۔

بتایا گیا کہ زیر حراست سماجی رضاکاروں کے خلاف عائد کردہ الزامات تاحال عوامی سطح پر سامنے نہیں لائے گئے۔

ایمنیٹی انٹرنیشنل کی مشرق وسطیٰ میں ڈائریکٹر سماح حدید نے کہا کہ ’سماجی رضاکاروں کو ایک برس سے زائد حراست میں رکھا جہاں انہیں وکیل تک رسائی نہیں دی گئی‘۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’خواتین رضا کاروں پر تشدد کیا، ان سے غیر مناسب رویے اپنایا اور جنسی طور پر ہراساں کیا گیا‘۔

سماح حدید نے کہا کہ ’اب ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ حکام خواتین رضاکاروں کے خلاف مقدمہ قائم کریں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی اتھارٹیز اب سماجی رضاکاروں کے حقوق کو بطور جرم تصور کررہی جو کہ ملک مں انتشار کی کیفیت پیدا کرے گی اور مزید سماجی رضاکاروں کے خلاف کریک ڈاؤں ہوں گے‘۔

اس ضمن میں یومن رائٹس واچ مشرق وسطیٰ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل پیج کا کہنا تھا کہ ’خواتین کے حقوق کی رضاکاروں کو بلا مشروط رہا کرنے کے بجائے سعودی پراسیکیوشن ان کے خلاف الزامات عائد کررہا ہے‘۔

واضح رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نئی نسل سے تعلق رکھنے والے پہلے سعودی بادشاہ ہوں گے، جنہوں نے بڑے پیمانے پر سعودی عرب میں اصلاحات کا نفاذ کیا اور خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کا خاتمہ کیا جبکہ قدامت پسند سعودی معاشرے میں جدت کو متعارف کروانے کا منصوبہ بھی جاری ہے۔

سعودی عرب میں گزشتہ برس کریک ڈاؤن کے دوران حراست میں لی گئیں انسانی حقوق کی خواتین رضاکاروں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

install suchtv android app on google app store