افغانستان سے فوجیوں کی یکطرفہ واپسی نہیں کریں گے: امریکا

 امریکی سیکریٹری دفاع پیٹریک شنہان فائل فوٹو امریکی سیکریٹری دفاع پیٹریک شنہان

قائم مقام امریکی سیکریٹری دفاع پیٹریک شنہان نے کہا کہ ’افغانستان سے امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ نیٹو سے مشاورت کے بعد ممکن ہوگا‘۔

 پینٹاگون چیف نے ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا کہ افغان امن مذاکرات میں کابل حکومت کو لازمی حصہ بنایا جائے۔

امریکا کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات جاری ہیں تاہم نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینفر سٹولٹنبرگ نے اشرف غنی کی افغان حکومت کی امن مذاکرات میں شمولیت میں تاخیر پر خبردار کیا۔

دوسری جانب قائم مقام امریکی سیکریٹری دفاع پیٹریک شنہان نے کہا کہ ’افغانستان سے امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ نیٹو سے مشاورت کے بعد ممکن ہوگا‘۔

واضح رہے کہ نیٹو فورسز، افغانستان میں عسکری تربیت اور ’سپورٹ مشن‘ کی ذمہ داری نبھا رہی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی چاہتے ہیں لیکن خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکا، کابل میں پائیدار امن قائم کیے بغیر انخلا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’افغان حکومت کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں ہے‘۔

بعد ازاں برسلز میں نیٹو ڈیفنس وزرا سے بات چیت کے بعد پیٹریک شنہان نے بیان دیا کہ ’واشنگٹن اکیلا ہی فیصلہ نہیں کرے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ’میں محسوس کرتا ہوں کہ امریکی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کو ضرورت کے مطابق سیاسی اہمیت نہیں دی جارہی‘۔

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ضرورت ہے کہ ممکنہ طور پر امن پر بات کی جائے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل طالبان نے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد سے رواں ماہ مذاکرات کے لیے 14رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا تھا۔

 

install suchtv android app on google app store