ایمنسٹی نے سوچی سے انسانی حقوق کا ایوارڈ واپس لے لیا

آنگ سان سوچی آنگ سان سوچی

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میانمار کی خاتون رہنما آنگ سان سوچی سے وہ ایوارڈ واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، جو انہیں 2009ء میں جمہوریت کی بحالی اور انسانی حقوق کے لیے کوششوں پر دیا گیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی سے ایوارڈ واپس لینے کے اس فیصلے کی وجہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کے حوالے سے آنگ سان سوچی کی جانب سے مناسب کردار ادا کرنے میں ناکامی ہے۔

میانمار میں آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی 2015ء میں برسر اقتدار آئی تھی۔ میانمار کی فوج کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں پر سوچی کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔ ایمنسٹی کے علاوہ کئی دیگر یونیورسٹیز اور ادارے بھی سوچی کو دیے گئے اعزازات واپس لے چکے ہیں۔

ناقابل دفاع عمل کا دفاع

دوسری جانب ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی میانمار کی اس خاتون رہنما کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں ناقابل دفاع ہیں۔‘‘ ترانوے سالہ وزیراعظم نے سنگاپور میں جاری جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے اجلاس آسیان سے قبل صحافیوں کو بتایا، ’’ایسا لگ رہا ہے کہ آنگ سان سوچی ناقابل دفاع عمل کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘

بعد ازاں آسیان اجلاس کی افتتاحی تقریب اور استقبالیہ عشائیے کے دوران دونوں رہنما ایک ساتھ تشریف فرما تھے۔ تاہم وہ ایک دوسرے کو نظر انداز کرتے دکھائی دیے۔ سوچی کے دفاع میں ان کے چند حمایتیوں کا کہنا ہے کہ میانمار کی حکومتی معاملات میں آج بھی عسکری قیادت زیادہ سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ تاہم سوچی کے ناقدین سمجھتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے سلسے میں جمہوری حکومت کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔

واضح رہے کہ میانمار حکومت کے لیے روہنگیا مہاجرین کی بنگلہ دیش سے واپسی کا معاملہ بھی سفارتی سطح پر ایک تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔

install suchtv android app on google app store