آنگ سان سوچی کے وفادار میانمار کے صدر کیاؤ مستعفی

آنگ سان سوچی کے وفادار میانمار کے صدر کیاؤ مستعفی آنگ سان سوچی کے وفادار میانمار کے صدر کیاؤ مستعفی

رکھائن میں مسلمانوں کے قتل وعام کے بعد عالمی طور پر دباؤ کا شکار میانمار کی حکمران رہنما آنگ سان سوچی کے قریبی ساتھی اور ملک کے صدر ہٹن کیاؤ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

میانمار کے صدر کے آفیشل فیس بک پر جاری پیغام میں کہا گیا ہے کہ 'میانمار کے صدر یو ہٹن کیاؤ نے 21 مارچ 2018 کو استعفیٰ دے دیا'۔

صدر کے دفتر کی جانب سے تفصیلات نہیں دی گئی ہیں تاہم اتنا واضح کیا گیا ہے کہ 'وہ موجودہ عہدے سے سبکدوش ہوکر آرام کرنا چاہتے ہیں' جبکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے صدر کا انتخاب 'سات روز کے اندر ہوگا'۔

میانمار کی صدارت سے مستعفی ہونے والے ہٹن کیاؤ حکمراں رہنما آنگ سان سوچی کے اسکول کے ساتھی ہیں جبکہ ملک میں فوجی آئین کے باعث جب سوچی کو حکومت سے روکا گیا تو وہ ان کے نائب کے طور پر کام کر رہے تھے۔

خود کو اسٹیٹ قونصلر کا درجہ دینے والی آنگ سان سوچی کی موجودگی میں سول انتظامیہ پر ہٹن کیاؤ کی سربراہی بظاہر رسمی تھی جبکہ تمام احکامات سوچی کی جانب سے دیے جاتے تھے لیکن وہ پارٹی کے اندر سوچی کے وفادار اور مقامی معاملات پر ان کے اتحادی رہے۔

ہٹن کیاؤ کی جانب سے استعفے کے بعد میانمار کے نائب صدر سابق حکومت کے قریبی ریٹائرڈ جنرل میئنٹ شوے کو آئین کے مطابق نئے صدر کے انتخاب تک عارضی طور پر عہدہ سونپ دیا گیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے آنگ سانگ سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کو اندرونی معاملات میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ 72 سالہ ہٹن کے مستقبل کے حوالے سے چند مہینوں سے شبہات کا اظہار کیا جارہا تھا جس کی وجہ ان کی گرتی ہوئی صحت تھی کیونکہ انھیں دل کے عارضے کے ساتھ ساتھ وزن بھی گرنے کی شکایت تھی۔

دوسری جانب سے ہٹن کیاؤ کے فیصلے کے فوری بعد میانمار کے ایوان زیریں کے اسپیکر اور آنگ سان سوچی کے اتحادی ون میئنٹ نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور اس فیصلے کو میانمار کے نئے صدر کے طور پر قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔

تجزیہ کار رچرڈ ہورسی کا کہنا تھا کہ 'جن کو بھی یہ صدر منتخب کریں گے وہ مکمل طور پر ان کا بااعتماد شخص ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وہ اعتماد ان کے اختیارات کے حوالے سے ہوگا کیونکہ آئین کے مطابق ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے تاہم وہ صدر سے تعلق کے باعث یہ اختیارات حاصل ہوسکتے ہیں'۔

یاد رہے کہ میانمار کی ریاست رکھائن میں گزشتہ ایک سال میں مسلمانوں کی ماورائے قانون قتل و غارت اور بے گھر کرنے کے واقعات میں تیزی آئی تھی جس پر عالمی برادری کی جانب سے میانمار کی حکومت پر سخت دباؤ تھا۔

میانمار کی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی جبکہ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں نے جان بچا کر بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کی تھی جہاں ان کی حالات غذائی قلت کے باعث ابتر ہوگئی تھی تاہم ترکی اور اقوام متحدہ کی جانب سے اقدامات کئے گئے تھے اور مزید مدد کی اپیل کی تھی۔

install suchtv android app on google app store