آئین میں بڑی تبدیلی کا فیصلہ

آئین میں بڑی تبدیلی کا فیصلہ فائل فوٹو

بنگلہ دیش میں طلبہ انقلابی تحریک کے نتیجے میں حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اب آئین میں بڑی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش میں رواں سال اگست میں طلبہ انقلابی تحریک کے نتیجے میں حسینہ واجد کے 16 سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد اب عبوری حکومت محمد یونس کی سربراہی میں قائم ہے جس نے ملکی آئین کو عوامی امنگوں کے مطابق بنانے کے لیے بڑی تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت ملکی آئین سے فسطائیت کو ختم کر کے جمہوریت کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کا عزم رکھتی ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ ماہ ایک اصلاحاتی کمیشن علی ریاض کی سربراہی میں تشکیل دیا گیا جس کا مقصد ایک ایسا آئین تیار کرنا ہے جو بنگلہ دیشی عوام کے امنگوں کی عکاسی کرے۔

اس کمیشن کے دیگر اراکین میں سینیئر وکلا، ڈھاکا یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسرز، انسانی حقوق کے کارکنان اور ایک طالب علم رہنما شامل ہیں جنہوں نے حسینہ واجد کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی۔

ریفارم کمیشن کے سربراہ علی ریاض نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ملک کے موجودہ آئین کے تحت وزیر اعظم کے پاس بے پناہ طاقت ہے اور اختیارات کی یہ مرکزیت فاشزم کی راہ ہموار کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عبوری حکومت کو آئین میں تبدیلی لانے کے لیے اپنی سفارشات مذکورہ اصلاحاتی کمیشن کو 31 دسمبر تک دینا ہوں گی، جس کو آئین کا حصہ بنا کر ملک کو نئی ڈگر پر ڈالا جائے گا۔ اس عمل میں آئینی ماہرین، وکلا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت کے دور شامل ہوں گے۔

علی ریاض نے کہا کہ عبوری حکومت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ تجاویز پر تبادلہ خیال کرے گی اور اپنی سفارشات کمیشن کو بھیجے گی اور ’بات چیت کے بعد حتمی رائے قائم کی جائے گی۔‘

واضح رہے کہ حسینہ واجد نے اقتدار ختم ہونے کے بعد ملک چھوڑ کر بھارت میں پناہ لی ہوئی ہے اور وہاں سخت حفاظتی پہرے میں مقیم ہیں۔

install suchtv android app on google app store