کیا امریکا اور چین کے درمیان جنگ ہوسکتی ہے؟ سینئر امریکی جنرل نے بتادیا

کیا امریکا اور چین کے درمیان جنگ ہوسکتی ہے؟ سینئر امریکی جنرل نے بتادیا فائل فوٹو کیا امریکا اور چین کے درمیان جنگ ہوسکتی ہے؟ سینئر امریکی جنرل نے بتادیا

امریکی ایئر فورس کے ایک فور اسٹار جنرل نے خبردار کیا ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تائیوان کے معاملے پر جاری تناؤ کے نتیجے میں 2025 میں امریکا اور چین کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جمعہ کو سوشل میڈیا پر منظرعام پر آنے والے میمورنڈم میں ایئر موبیلٹی کمانڈ کے جنرل مائیک منی ہن نے کہا کہ ہمارا بنیادی مقصد ان کو روکنا اور اگر ضرورت ہو تو چین کو شکست دینا ہونا چاہیے۔

انہوں نے اپنے کمانڈرز اس سال اپنی تمام تر تیاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں میں غلط ثابت ہوں لیکن میرا اندازہ ہے کہ ہمارے درمیان 2025 تک جنگ ہو گی۔

امریکی جنرل نے اس پیشگوئی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ آئندہ سال تائیوان کے صدارتی انتخابات ہیں جو چین کو فوجی جارحیت کا جواز فراہم کر سکتے ہیں جبکہ امریکا خود بھی وائٹ ہاؤس میں نئی صدر کے لیے مقابلوں میں مصروف ہو گا۔

امریکی جرل کی جانب سے لکھے گئے اس میمورنڈم کی پنٹاگون کی جانب سے تصدیق کردی گئی ہے جس میں انہوں نے مزید کہا ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ کی ٹیم، حالات و واقعات اور وجوہات 2025 سے مطابقت رکھتے ہیں۔

اس میمورنڈم میں موبائل کمانڈ کی ٹیم کے تمام اہلکاروں کو فائرنگ رینج کی پریکٹس اور سر کو نشانہ بنانے کی تربیت کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

پنٹاگون کے ترجمان نے اے ایف پی کو اس میمو کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حیقیقت ہے کہ میمو بھیجا گیا ہے۔

حالیہ عرصے کے دوران امریکا کے سینئر سیاستدانوں اور عہدیداروں کی جانب سے بارہا کہا جا چکا ہے کہ تائیوان کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ چین کے اقدامات میں تیزی آ رہی ہے۔

گزشتہ سال اگست میں چین کی جانب سے بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کی گئی تھیں جسے چین کے تائیوان پر حملے کی تیاریوں کا نقطہ آغاز قرار دیا گیا تھا کیونکہ یہ مشقیں ایک ایسے موقع پر کی گئی تھیں جب اسپیکر نینشی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تھا۔

امریکا عہدیدار تائیوان کے لیے فوجی امداد میں اضافے کا مسلسل مطالبہ کررہے ہیں جہاں ان کا کہنا ہے کہ روس پر یوکرین کے حملے کے بعد پہلے سے تیار رہنے کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے تاکہ کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کیا جا سکے۔

خیال رہے کہ امریکا نے 1979 میں اپنے سفارتی تعلقات تائی پے سے بیجنگ کی طرف منتقل کر دیا تھا لیکن یہ تائیوان کا بدستور کلیدی اتحادی ہے اور تائی پے کے ساتھ ڈی فیکٹو سفارتی تعلقات برقرار رکھا ہوا ہے۔

واشنگٹن کی سرکاری پالیسی تائیوان کی آزادی کے اعلان اور چین کی جانب سے جزیرے کی حیثیت زبردستی تبدیل کرنے کے مخالف ہے۔

تائیوان کے سینئر امریکی عہدیداروں کے دورے کئی دہائیوں سے ہوتے رہے ہیں، ایوان نمائندگان کے اسپیکر نیوٹ گنگرچ نے 1997 میں دورہ کیا تھا۔

لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بائیڈن دونوں کے دور میں امریکی دوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ کے جارحانہ مؤقف کے جواب میں تائیوان نے حالیہ برسوں میں یورپ اور دیگر مغربی اتحادیوں کے وفود کی سطح پر دورے بھی کیے۔

 

install suchtv android app on google app store