روس سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ کر چین کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے

چینی اور روسی صدور فائل فوٹو چینی اور روسی صدور

کسٹمز کے اعدادوشمار کے مطابق چین نے مئی میں روس سے خام تیل کی درآمدات میں اضافہ کیا جس سے یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے روسی توانائی کی خریداری پر مرتب ہونے والے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملی۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اس اضافے کا مطلب ہے کہ روس سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ کر چین کو بڑا تیل فراہم کرنے والا سب سے ملک بن گیا ہے کیونکہ مغرب کی جانب سے ماسکو کی توانائی کی برآمدات پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت نے گزشتہ ماہ روس سے تقریباً 84لاکھ 20ہزار ٹن تیل درآمد کیا جو کہ گزشتہ سال کی نسبت 55 فیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

بیجنگ نے عوامی سطح پر ماسکو کی جنگ کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے دنیا کی جانب سے تنہائی کا شکار کیے گئے اپنے پڑوسی سے معاشی فوائد حاصل کیے ہیں۔

چین نے مئی میں سعودی عرب سے 78لاکھ 20ہزار ٹن تیل درآمد کیا۔

چین نے گزشتہ ماہ 7.47 ارب ڈالر مالیت کی روسی توانائی کی مصنوعات خریدیں، جو اپریل کے مقابلے میں تقریباً 1 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔

کسٹم کے نئے اعداد و شمار یوکرین کی جنگ کے چار ماہ بعد سامنے آئے ہیں جس میں امریکا اور یورپ کے خریدار روسی توانائی کی درآمدات کی خریداری سے گریز کر رہے ہیں یا آنے والے مہینوں میں ان میں کمی کا وعدہ کر رہے ہیں۔

ایشیائی میں بڑھتی ہوئی مانگ بالخصوص چین اور بھارت کے خریدار روس کی ان نقصانات کا ازالہ کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔

ریسرچ فرم رائسٹڈ انرجی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت نے مارچ سے مئی تک گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ روسی تیل خریدا جبکہ اس عرصے کے دوران چین کی درآمدات تین گنا بڑھ گئیں۔

تجزیہ کار وی چیونگ ہو نے کہا کہ یہ خالص معاشیات ہے کہ بھارت اور چینی ریفائنرز زیادہ روسی نژاد خام تیل درآمد کر رہے ہیں کیونکہ یہ تیل سستا ہے۔

بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی عالمی تیل کے حوالے سے تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بھارت نے گزشتہ دو مہینوں میں روسی خام تیل کے دوسرے سب سے بڑے درآمد کنندہ کے طور پر جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

چین 2016 سے روس کی خام تیل کی سب سے بڑی منڈی ہے۔

یوکرین پر ماسکو کے حملے سے چند دن پہلے چین کے صدر شی جن پنگ نے بیجنگ میں اپنے روسی ہم منصب ولادمیر پیوٹن کا استقبال کیا جہاں دونوں ممالک نے ’لامحدود‘ دو طرفہ تعلقات کا اعلان کیا تھا۔

اگرچہ کووڈ کی پابندیوں کی وجہ سے چین میں مانگ میں کمی آئی تھی لیکن پچھلے مہینے کچھ بہتری آئی ہے کیونکہ وبائی امراض کے ابتدائی دنوں کے مقابلے میں ملک میں پابندیوں میں کچھ نرمی کی گئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین نے سپلائی چین کے مسائل کو کم اور صنعتی پیداوار کو تیز کرنے کی اجازت دی ہے۔

کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق مئی میں روس سے چین کی مجموعی درآمدات ایک سال پہلے کے مقابلے میں 80 فیصد بڑھ کر 10.3 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔

بیجنگ کی روسی مائع قدرتی گیس کی خریداری سالانہ بنیادوں پر 54 فیصد بڑھ کر 3لاکھ 97ہزار ٹن ٹن ہو گئی بلکہ ایندھن کی مجموعی درآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی۔

چین مسلسل روس پر عائد مغربی پابندیوں اور کیف کو ہتھیاروں کی فروخت پر تنقید کررہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اس پر الزام عائد کررہے ہیں کہ وہ روس کو سفارتی ڈھال فراہم کررہا ہے۔

ماضی میں سرد جنگ میں بدترین حریف تصور کیے جانے والے چین اور روس نے حالیہ برسوں میں تعاون کو بڑھایا ہے تاکہ وہ دنیا پر امریکا کے غلبے کے خلاف توازن قائم کر سکیں۔

اس ماہ انہوں نے دونوں ممالک کو ملانے والے پہلی سڑک کے پل کی نقاب کشائی کی جو روس کے مشرقی شہر بلاگووشینسک کو شمالی چینی شہر ہیہی سے ملاتا ہے۔

گزشتہ ہفتے ژی نے دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک کال میں پیوٹن کو روسی خودمختاری اور سلامتی پر چین کی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا اور کریملن نے کہا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے غیر قانونی مغربی پابندیوں کے باوجود اقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔

install suchtv android app on google app store