اوسلو: مغربی ممالک اور افغان طالبان کے درمیان تین روزہ مذاکرات کا آغاز

مغربی ممالک اور افغان طالبان کے درمیان تین روزہ مذاکرات کا آغاز فائل فوٹو مغربی ممالک اور افغان طالبان کے درمیان تین روزہ مذاکرات کا آغاز

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں طالبان کے ایک وفد نے اوسلو میں مغربی حکام کے ساتھ اپنی اہم ملاقاتوں سے قبل افغان سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ انسانی حقوق سے متعلق بات چیت کا آغاز کیا ہے۔

وفد نے اپنے تین روزہ دورے کے پہلے روز افغان خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے رضاکاروں سے بات چیت کی۔

یہ ملاقاتیں ناروے کے دارالحکومت میں واقع سوریا موریا ہوٹل میں ہو رہی ہیں، کیونکہ ماضی میں مشرق وسطیٰ اور کولمبیا کے تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والا ناروے ان مذاکرات میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔

مذاکرات سے پہلے طالبان کے نائب وزیر ثقافت اور اطلاعات نے امیر خان متقی کا ایک وائس نوٹ ٹوئٹر پر شیئر کیا، جس میں کامیابیوں سے بھرے اچھے سفر کی امید کا اظہار اور ناروے کا شکریہ ادا کیا گیا تھا، جس ملک کے بارے میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ یورپ کے ساتھ مثبت تعلقات کے لیے ایک ذریعہ بن جائے گا۔

اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ان کے نمائندوں نے یورپ میں سرکاری ملاقاتیں کی ہیں، اس سے قبل انہوں نے قطر، روس، ایران، چین اور ترکمانستان کا سفر کیا۔

بات چیت کے دوران، امیر خان متقی یقینی طور پر طالبان کے اس مطالبے پر زور ڈالیں گے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے منجمد کیے گئے اثاثوں کو بحال کیا جائے کیونکہ افغانستان کو ایک خطرناک انسانی بحران کا سامنا ہے۔

گزشتہ 5 ماہ میں افغانستان کی انسانی اور اقتصادی صورت حال بہت زیادہ خراب ہوئی ہے کیونکہ کسی بھی مغربی ملک نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

گزشتہ سال اگست تک جب غیر ملکی افواج افغانستان سے نکلی تھیں اس وقت تک خانہ جنگی کے شکار اس ملک کے بجٹ کا تقریباً 80 فیصد حصہ بین الاقوامی امداد سے حاصل کیا جاتا تھا جب کہ اس وقت سے امریکا نے افغانستان کے 9 ارب 50 کروڑ ڈالر کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔

سال 2001 میں امریکی قیادت میں فوجی اتحاد نے طالبان کو افغانستان میں اقتدار سے بے دخل کردیا تھا لیکن بین الاقوامی افواج کے افغانستان سے عجلت میں انخلا کے بعد طالبان نے دوبارہ اقتدار حاصل کر لیا تھا۔

طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد اچانک رک گئی تھی جس سے لاکھوں لوگوں کی حالت مزید خراب ہوگئی جو پہلے ہی شدید خشک سالی کے سبب بھوک کا شکار تھے۔

ناروے کے وزیر خارجہ اینیکن ہیٹ فیلڈ نے زور دے کر کہا کہ یہ مذاکرات طالبان کی قانونی حیثیت یا شناخت تسلیم کرنے کے لیے نہیں ہیں لیکن ہمیں بہرحال ملک کے موجودہ حکام سے بات کرنی چاہیے، ہم سیاسی صورتحال کو اس سے بھی بدتر انسانی بحران کی طرف جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

اس موقع پر موجود اے ایف پی کے ایک صحافی نے رپورٹ کیا کہ کئی درجن مظاہرین نے ناروے کی وزارت خارجہ کے باہر احتجاج کرتے ہوئے ’نو ٹو طالبان، طالبان ٹیررسٹس اور افغان لائیوز میٹر' کے نعرے لگائے۔

آج (پیر کے روز) طالبان امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور یورپی یونین کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے جبکہ منگل کو ناروے کے حکام کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات ہوں گے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق افغانستان میں انسانی اور اقتصادی بحران، سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے خدشات اور انسانی حقوق، خصوصاً لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم سے متعلق افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ کی قیادت میں ایک امریکی وفد افغانستان میں ایک عوامی نمائندہ سیاسی نظام کی تشکیل پر بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ مذاکرات جنگ کے ماحول کو پرامن صورتحال میں تبدیل کرنے میں مدد کریں گے۔

کابل سے آنے والے وفد میں حقانی نیٹ ورک کے رہنما انس حقانی بھی شامل ہیں جن کا کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے، 2019 میں قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہونے سے قبل وہ کابل کے مضافات میں امریکی بگرام جیل میں کئی سال تک قید رہے تھے۔

install suchtv android app on google app store