چھینک یا ہچکی کی طرح جماہی بھی ہمارے جسم کا ایک ایسا ردعمل ہے جسے ہم کنٹرول نہیں کرسکتے۔
ہم جماہی کو روکنے کی کوشش کرسکتے ہیں مگر یہ ایسا عمل ہے جو ہمارے سوچے بغیر بھی ہو جاتا ہے۔
چھینک یا ہچکی کے برعکس جماہیاں ایک سے دوسرے تک پھیلتی ہیں۔
یعنی آپ کسی کو جماہی لیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو خود بھی منہ پھاڑ کر ویسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ جماہی لفظ کو پڑھ کر ہی ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ویسے ہم جماہی کیوں لیتے ہیں یہ انسانی جسم کا ایک اسرار ہے کیونکہ اب تک اس کی درست وجہ کا تعین نہیں ہوسکا۔
مگر اس کے چھوت کی طرح پھیلنے کے اثر پر ماہرین نے کافی کام کیا ہے اور اس بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ درج ذیل ہے۔
ہم جماہی کیوں لیتے ہیں؟
برطانیہ کی ناٹنگھم یونیورسٹی کی پروفیسر Beverley Brown کے مطابق جماہی ایک ایسا عمل ہے جس کے دوران ہم ہوا کو اندر کھینچتے ہوئے جبڑوں کو کھولتے ہیں اور پھر تیزی سے ہوا خارج کرتے ہیں۔
اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کے ماہر اینڈریو گیلپ کے مطابق عموماً جماہی کا ایک مخصوص وقت ہے اور لوگ صبح جاگنے کے فوری بعد یا رات کو سوتے وقت جماہیاں لیتے نظر آتے ہیں۔
ایک تحقیق میں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ جماہی ایک ایسی علامت ہے جو بتاتی ہے کہ ہم بیداری یا سونے کے لیے تیار ہیں۔
تو اگر آپ کو رات میں بہت زیادہ جماہیاں آرہی ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہوسکتی ہے کہ آپ کا جسم سونے کا خواہشمند ہے۔
اسی طرح صبح کے وقت جماہیاں آرہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ جسم خود کو مستعد کررہا ہے۔
جماہیاں ہمیں زیادہ مستعد بناتی ہیں
جماہی ہمارے جسم کا خود کو مستعد رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اور اینڈریو گیلپ نے بتایا کہ یہ عمل ممکنہ طور پر جسمانی درجہ حرارت سے منسلک ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نیند کے وقت ہمارا جسمانی درجہ حرارت سب سے کم ہوتا ہے اور جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو وہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیداری کے بعد جماہی لینے سے ہمیں جسم اور دماغ کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد ملتی ہے جس سے جسم زیادہ مستعد ہو جاتا ہے اور دن بھر کے کاموں کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
اینڈریو گیلپ نے کہا کہ جسمانی درجہ حرارت میں اضافے کو تھکاوٹ سے منسلک کیا جاتا ہے تو جماہی دماغ کو ٹھندا کرتی ہے اور اسے زیادہ الرٹ کرتی ہے۔
کسی کو ایسا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں
یہ بات درست ہے کہ جماہی ایک سے دوسرے فرد تک پھیلتی ہے، دیکھنے، اس کے بارے میں سننے یا سوچنے سے بھی آپ جماہی لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اینڈریو گیلپ نے بتایا کہ کچھ افراد دیگر کے مقابلے میں زیادہ جماہیاں لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
یہاں تک کہ اگر آپ الٹے ہوکر بھی کسی کو جماہی لیتے ہوئے دیکھیں تو خود کو منہ پھاڑنے سے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔
تو یہ چھوت کی طرح کیوں پھیلتی ہے؟
تو جماہیاں ایک سے دوسرے تک کیسے پھیلتی ہیں اس کا درست جواب تو اب تک معلوم نہیں ہوسکا مگر ایک خیال یہ ہے کہ ہمارے نیورونز دیگر افراد کی نقل کرتے ہوئے ہمیں اس پر مجبور کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سماجی تعلقات کا عنصر جماہیوں کو چھوت کی طرح پھیلاتا ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ہنسی کی طرح جماہی بھی ایک ایسا عمل ہے جو لوگ ایک ساتھ کرتے ہیں اور یہ عمل سماجی طور پر اثرات مرتب کرتا ہے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ جماہی ایک ایسا ارتقائی عمل ہے جس سے زمانہ قدیم میں لوگوں کو زیادہ ہوشیار رہتے ہوئے خطرات سے بچنے میں مدد ملتی تھی۔
تو کیا جماہی تھکاوٹ کا اظہار کرتی ہے؟
ویسے تو تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ جب ہم تھکے ہوئے ہوتے ہیں تو جماہی لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، مگر یہ تھکاوٹ یا غنودگی کی علامت نہیں، بلکہ یہ عمل جسمانی درجہ حرارت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ خیال غلط ہے کہ جماہی لینے والا فرد تھکاوٹ یا بیزاری کا شکار ہے۔
کیا جانور جماہی لیتے ہیں؟
جماہی صرف انسانوں تک محدود نہیں، دیگر جانور جیسے بندر، مگر مچھ، سانپ اور کچھ مچھلیوں کو بھی جماہی لیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔