ٹیسلا اور چینی ای وی برانڈز کی بدولت بیٹری سے چلنے والی الیکٹرک گاڑیاں (بی ای وی) یا بیٹری کے بغیر چلنے والی الیکٹرک گاڑیاں (ای وی) ہر جگہ موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔ لوگ ان گاڑیوں کے بارے میں فکر مند ہیں کہ یہ کس طرح سے مستقبل بنیں گی، یہ ماحول کو آلودگی سے کیسے بچائیں گی اور گاڑیوں کی ملکیت کے حوالے سے کس طرح سے انقلاب برپا کریں گی۔
لیکن یہاں ہمارے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ان الیکٹرک گاڑیوں کے لیے تیار بھی ہے یا ہم ایک ایسا خواب دیکھ رہے ہیں جو اس وقت ہمارے لیے بہت بڑا ہے؟
سوشل میڈیا پر بی ای وی اور ای وی گاڑیاں بہت شاندار محسوس ہوتی ہیں۔ یہ قدرتی ایندھن نہیں جلاتیں اور دھویں کے صفر اخراج کی بدولت یہ توانائی کے لیے بہتر تصور کی جاتی ہیں اور ای وی تیار کرنے والی کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ گاڑیاں آگے چل کر صارفین کے پیسے بچائیں گی۔
لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ شہر میں ان گاڑیوں کے لیے کتنے چارجنگ اسٹیشن موجود ہیں۔ کیا آپ اس سوچ سے آزاد ہو کر انہیں کراچی سے اسلام آباد تک چلا کر لے جا سکتے ہیں کہ آپ اسے کہاں چارج کریں گے؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم ای وی انقلاب کی بات کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں اس کا بنیادی ڈھانچہ عملی طور پر موجود ہی نہیں ہے۔
کمپنیاں گاڑیوں کی چارجنگ کے لیے مناسب تعداد میں سہولیات کا بندوبست کیے بغیر لوگوں کو ’ہرے بھرے مستقبل کا خواب‘ بیچ رہی ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک نئے چمکدار کھلونے کا وعدہ کیا جائے جسے صحیح سے استعمال نہ کیا جا سکتا ہو۔
اب کچھ لوگ اس کی حمایت میں سامنے آتے ہوئے کہیں گے کہ ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیاں (ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیاں اور پلگ ان ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیاں) پاکستان کے لیے زیادہ بہترین آپشن ہیں، کیونکہ یہ بجلی اور پیٹرول دونوں کا استعمال کرسکتی ہیں، لہٰذا اگر گاڑی کی چارجنگ ختم ہوگئی تو آپ راستے میں ہی کھڑے رہ جائیں گے۔
تاہم اس میں ناخوشگوار پہلو یہ ہے کہ ہائبرڈ گاڑیاں اب بھی خصوصاً ہائی ویز پر قدرتی ایندھن پر چلتی ہیں، یہ عام پیٹرول کی گاڑیوں جیسی ہی ہیں۔ دوسری جانب بیٹری کے بغیر چلنے والی الیکٹرک گاڑیاں مکمل طور پر بجلی پر چلتی ہیں۔ یہ بات سوچی جا سکتی ہے کہ کیا یہ واقعی ہمیں درآمدی تیل سے چھٹکارا پانے میں مدد کر سکیں گی یا ہمارے لیے محض ایک ایسے جز وقتی حل کے طور پر کام کرے گا جو ہمیشہ اچھا محسوس کرائے گا۔
دوسری جانب حقیقی الیکٹرک وہیکل مکمل طور پر بجلی پر چلتی ہے اور پاکستان میں اب بھی تقریباً 59 فیصد الیکٹرک گاڑیاں قدرتی ایندھن سے چلتی ہیں۔ تو ہم اتنے ہرے بھرے نہیں ہیں جتنا ہم خود کو تصور کرتے ہیں۔ ہم محض اپنے مسائل گاڑیوں کے انجن سے درآمدی کوئلے اور فرنس آئل سے چلنے والے پاور پلانٹس پر منتقل کر رہے ہیں۔
اگر ان گاڑیوں کی لاگت کے بارے میں بات کی جائے تو یہ الیکٹرک گاڑیاں سستی نہیں ہیں اور جبکہ ہم سب ایک سرسبز، زیادہ پائیدار مستقبل کے خواب دیکھ رہے ہیں تو اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں کتنے لوگ ان گاڑیوں کو خرید سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومتی مراعات کے باوجود یہ کاریں اب بھی مکمل طور پر بلڈ۔اپ کاریں ہیں اور زیادہ تر صارفین کی پہنچ سے دور ہیں، جو ہمیں ایک ایسے حل کی طرف لے جاتی ہیں جو صرف اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتی ہے جبکہ باقی آبادی کو گیس سے چلنے والی کاروں میں پھنسا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔
اور اس سلسلے میں گاڑی پر آنے والی لاگت کے مقابلے میں اس کی طویل مدتی بچت کے پہلو کو نہ بھولیں۔ جی ہاں، الیکٹرک وہیکل طویل عرصے تک چلانے کے لحاظ سے سستی ہیں لیکن یہ فرض کریں کہ کیا آپ پہلی بار بھی اس گاڑی کو خریدنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس بات کی کوئی تُک نہیں بنتی کہ ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کی دیپال ایس 07 ای وی خریدی جائے جبکہ آپ اتنی ہی گنجائش کی حامل اس کمپنی کے ذیلی برانڈ اوشان X7 یورو 6 کی پیٹرول سے چلنے والی گاڑی 90 لاکھ روپے کے اندر خرید سکتے ہیں۔
ان سب کے علاوہ پاکستان میں توانائی کا بحران بھی اہم مسئلہ ہے، پاکستان اکنامک سروے 24-2023 کے مطابق جولائی تا مارچ مالی سال 24 کے دوران بجلی کی مجموعی پیداوار 92 ہزار گیگاواٹ رہی جبکہ خراب ٹرانسمیشن لائنوں کی وجہ سے ہم نے صرف 68 ہزار 500 گیگاواٹ بجلی استعمال کی، اس کے نتیجے میں پاکستان کو بجلی کی بندش اور ناقابل بھروسہ گرڈ کے مسائل کا سامنا رہتا ہے اور اب ہم اس طلب میں مزید ہزاروں الیکٹرک گاڑیوں کو شامل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
ہر کوئی ان الیکٹرک گاڑیوں کو مستقبل کے طور پر پیش کرنے کے لیے کوشاں ہے لیکن یہاں کچھ ایک متنازع پہلو بھی ہے جس کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ کیا الیکٹرک گاڑیاں واقعی پاکستان کے ٹرانسپورٹ کے نظام اور توانائی کے مسائل کا بہترین حل ہیں، یا ہم یہ سوچے بغیر صرف مغرب کی نقالی کر رہے ہیں کہ ہمارے لیے حقیقت کیا ہے؟
بہتر یہی ہو گا کہ الیکٹرک وہیکلز کی جانب اندھا دھند بھاگنے کے بجائے موجود انفرااسٹرکچر کو اپ گریڈ کرتے ہوئے پبلک ٹرانسپورٹ میں بہتری کے لیے سرمایہ کاری کی جائے۔ الیکٹرک وہیکلز کی جانب قدم بڑھانے سے قبل ہی خود سے یہ سوالات پوچھنے کی ضرورت ہے۔