ان دنوں پیپلز پارٹی کے اندرونی حالات کیسے ہیں؟ پول کھول دینے والا انکشاف، سب حیران و پریشان رہ گئے

آصف علی زرداری اور بلاول فائل فوٹو آصف علی زرداری اور بلاول

نامور کالم نگار اشرف شریف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ یہ نئی قیادت کا حق ہے کہ وہ اپنی ٹیم منتخب کرے جیسا کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد اور والدہ کی ترتیب دی گئی ٹیم کی جگہ اپنے اعتماد کے لوگوں کو اہم عہدے دیے۔

یہاں بینظیر بھٹو‘ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے مابین ایک تقابل کا نکتہ بھی آتا ہے۔ بے نظیر بھٹو صرف اس وجہ سے لیڈر نہیں تھیں تھیں کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھیں۔ بے نظیر کی ضیاء الحق اور ان کی باقیات کے خلاف جدوجہد میدان میں لڑی گئی جنگ کے جیسی ہے۔

انہوں نے خالصتاً سیاسی انتقام کے زخم کھائے۔ آصف زرداری اور بلاول کو ایسا موقع ملا نہیں ملا۔ اگر وہ پنجاب میں نواز شریف کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپناتے تو شاید کسی حد تک ان کی سیاست کو جدوجہد کا نام دیا جا سکتا۔

بلاول کئی روز تک لاہور کے بلاول ہائوس میں بیٹھے رہے۔ پارلیمنٹ میں سنجیدہ اور اہم معاملات پر موثر انداز میں بات کر کے بلاول نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

وہ اپنے مورچے میں بیٹھ کر گولے پھینک رہے ہیں لیکن حکمت عملی کے اعتبار سے یہ گولے غلط ہدف کا رخ کر رہے ہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔

پیپلز پارٹی اگر اس وقت اپنی سیاسی سرگرمیاں بڑھاتی ہے تو حکومت اعتراض نہیں کر سکتی۔اب کوئی نواز یا شہباز شریف نہیں جو پی پی کارکنوں کو پولیس کے ذریعے پٹوائے۔ تحریک انصاف نے پنجاب میں جو جگہ لینا تھی وہ اسے مل چکی۔

اس وقت ن لیگ کمزور پوزیشن میں ہے۔ بلاول کواس میسر گنجائش کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ن لیگ اگر پی پی کا ووٹ بینک توڑ سکتی ہے تو پی پی کیوں نہیں۔انہیں اپنی ٹیم میں اضافے کی ضرورت ہے۔6 کھلاڑیوں کے ساتھ آپ 11 کھلاڑیوں سے مقابلہ کیسے کریں گے۔

ایک اور بات حال ہی میں پنجاب سے پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کی ہے ایسی ہی ایک ملاقات پہلے ہو چکی ہے۔

پارٹی اس حد تک کمزور اور اندیشوں میں گھری ہے کہ اپنے رکن اسمبلی سے باز پرس تک نہیں کر سکتی۔

لاہور جیسے شہر میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے کارکن اب بھی ہیں۔ یہ کارکن بلاول بھٹو کو مل سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ایک میثاق جمہوریت ایسے ناراض کارکنوں کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے۔

جہاں تک تبدیلی کو تبدیل کئے جانے کا مطالبہ ہے تو حکومت تبدیل ہونے کا تاحال کوئی امکان نہیں۔

پاکستان میں قبل از وقت تبدیلی امریکہ یا آئی ایم ایف کی فرمائش پر ہوتی رہی ہے۔ حکومت نے مشکل ترین معاشی بحران میں خاطر خواہ ٹیکس جمع کر کے آئی ایم ایف کی اقساط ادا کرنے کا انتظام کر لیا ہے۔

امریکہ کورونا اور ٹرمپ کی وجہ سے داخلی مسائل کا شکار ہے۔ ہاں اگر بھارت پاکستان پر حملہ کر دے تو پاکستان میں حکومت رخصت ہو سکتی ہے لیکن اس صورت میں حکمران کوئی سیاستدان نہیں ہو گا۔

اس تاثر کو دور کرنا ضروری ہے کہ غریبوں کی ہمدرد پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن سے میثاق جمہوریت کر کے سرمایہ دار جمہوریت کا غلبہ تسلیم کر لیا۔ہر جماعت میں کارکن نظر انداز ہو رہے ہیں۔

بلاول کارکنوں سے میثاق جمہوریت کر کے ایک نئی عوامی سیاست کی بنیاد رکھ سکتے ہیں

install suchtv android app on google app store