وفاقی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں: وزیراعلیٰ سندھ

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ فائل فوٹو وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ملک کے حالات بدتر ہیں جبکہ ہر نجی و سرکاری ادارے میں کم از کم اجرت 25 ہزار روپے کرنے کو یقینی بنائیں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ملک میں بدتر حالات مہنگائی کے حوالے سے ہیں، اشیائے خورونوش کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں، پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتِ سندھ نے ان حالات کو دیکھ کر کم از کم اجرت 25 ہزار روپے کی تھی، ہم نے کم از کم اجرت میں 43 فیصد اضافہ کیا تھا اور عدالت نے فیصلہ دیا کہ کم از کم اجرت مقرر کرنا حکومت سندھ کا استحقاق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے کہا کہ کم از کم اجرت کا اطلاق عارضی اور یومیہ اجرت والے مزدور پر بھی ہونا چاہیے، کابینہ نے فیصلہ کیا ہے 25 ہزار روپے کم از کم اجرت کے قانون پر سختی سے عمل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ہر نجی و سرکاری ادارے میں یقینی بنائیں گے کہ کم از کم اجرت 25 ہزار روپے ملے۔

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ کم از کم اجرت 25 ہزار روپے سے بڑھانا ہوگی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ محکمہ لیبر میں شکایات سیل بنایا جائے گا، جو ادارہ کم از کم اجرت 25 ہزار روپے نہیں دے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب مہنگائی کی وجہ سے لوگ رونے کی سکت میں بھی نہیں رہے، وفاقی حکومت کو اپنی مرضی کے قوانین لانے سے فرصت نہیں، حقیقت پر بات کرنے کے بجائے پروپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا کے خلاف حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال پر ہم میڈیا کے ساتھ ہیں۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ میں اساتذہ کی بھرتی کے لیے آئی بی اے کے ذریعے ٹیسٹ لیے گئے تھے اور صوبائی کابینہ نے اساتذہ کی بھرتی کے لیے اہلیت کا معیار مقرر کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے میرٹ کا خیال رکھتے ہوئے آئی بی اے سے ٹیسٹ کرایا اور ٹیسٹ کے نتائج آئے تو سیکڑوں طلبا پاس نہیں ہوسکے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمیں اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے اور کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ خواتین کے لیے اہلیت کا معیار 50 فیصد نمبر کیا جائے جبکہ خصوصی صلاحیتوں کے حامل طلبا کے لیے 33 فیصد نمبر مقرر کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے کچھ دن پہلے ایک خط لکھا تھا اور کہا کہ کاربن کریڈٹ کو قومی اثاثہ قرار دیا جائے، جنگلات اور ماحولیات صوبائی معاملہ ہے اور ہمارے مینگروز پلانیٹیشن کی دنیا نے تعریف کی ہے۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت خود کچھ کرتی نہیں اور صوبے کے اچھے کام پر وفاقی حکومت قبضہ کرلیتی ہے، آئینی طور پر کاربن صوبائی معاملہ اور اثاثہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اداروں کو زمین، قانون کے مطابق دیتے ہیں اور پاکستان نیوی کو 200 ایکڑ زمین قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملیر ایکسپریس وے کا ایک روٹ طے ہوا تھا لیکن پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ بورڈ نے ملیر ایکسپریس وے روٹ تبدیل کرنے کی سفارش کی جس کی وجہ سے منصوبے کی لاگت بڑھ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی منطق کا مقابلہ نہیں کرسکتا، ان کے دور میں مکمل بد انتظامی ہے، گزشتہ سال بھی کہا تھا کہ گندم کی اسمگلنگ روکیں جبکہ اس سال بھی یہی حال ہے اور ہمیں دو ماہ قبل کہا گیا کہ گندم جاری کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں آٹا 70 روپے کلو مل رہا ہے، جہاں 55 کا آٹا مل رہا ہے وہ جانوروں کو بھی نہیں کھلا سکتے، ہر ملک اپنے شہریوں کا خیال رکھتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کہتا ہوں کہ اگر دوسرے ملکوں میں مہنگا ہے تو تم وہاں چلے جاؤ اور ہماری جان چھوڑو۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس حکومت کا کام ہر چیز دوسروں پر ڈالنا ہے، ان کا ہر کام جھوٹ پر مبنی ہے، ان کو اپنے اندر خامیاں نظر نہیں آتیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سے متعدد مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ صوبے میں افسران کی کمی پوری کریں، ہم اب اپنے افسران کی ٹریننگ کرائیں گے، وفاق نے 16 افسران دینے ہیں جبکہ اس وقت صرف چار افسر کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا کام صرف حکومت سندھ کو مفلوج کرنا ہے اور وفاق حکومت سندھ کے افسران کو زبردستی لے جاتا ہے، جو افسر نہیں جاتا اس کے خلاف انکوائری شروع کردیتے ہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اداروں سے ٹکرانے کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، اسپیکر سندھ اسمبلی کے ساتھ یہ رویہ رکھا جارہا ہے، حالانکہ اسپیکر کا یہ حق ہے کہ وہ سپریم کورٹ جائیں اور ریلیف حاصل کریں۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی کہیں بھاگے نہیں جارہے ہیں، چھاپہ مارنے کا سارا ڈراما کیا گیا، کسی کی تذلیل کرنا بہت غلط ہے، اسپیکر کے گھر پر چھاپہ مار کر بتانا کیا چاہتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ کو قید میں دو سال ہوگئے ہیں، بابل بھیو پر 4 لاکھ روپے کا الزام ہے اور وہ 3 سال سے قید ہیں۔

install suchtv android app on google app store