سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں، یہ ایک نالا صاف نہیں کرا سکتے: چیف جسٹس

سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں، یہ ایک نالا صاف نہیں، چیف جسٹس کا اظہار برہمی فائل فوٹو سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں، یہ ایک نالا صاف نہیں، چیف جسٹس کا اظہار برہمی

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہےکہ سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں، یہ ایک نالا صاف نہیں کراسکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں شاہراہ فیصل پر ٹاور کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

دوانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ شاہراہ فیصل کا روڈ کبھی کم نہیں ہوا بڑھا ہی ہے اس کے دونوں اطراف کا سروس روڈ انکروچمنٹ کیا گیا ہے، سب کرپٹ ہیں کمشنر بھی کہہ رہے ہیں قبضہ ہے، سارے رفاہی پلاٹس ہیں، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے، پیسے دیں جو چاہے کریں، سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ ان حالات میں صوبہ کیسے گزارا کرے گا؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ بتائیں، آپ سب جانتے ہیں بتائیں ہمیں، آپ کی حکومت کیسے کوئی اور چلا سکتا ہے؟ کسی کو تو کھڑا ہوکر اس کو روکنا ہوگا۔

معزز چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمانی طرز حکومت کا کچھ مطلب ہوتا ہے اور پارلیمانی حکومت مضبوط حکومت ہوتی ہے، جب آپ نالہ صاف نہیں کراسکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے؟ سال پہلے نالہ صاف کرنے کا حکم دیا، روزانہ نئے نئے بہانے۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ حکومت کینیڈا سے چلائی جارہی ہے اور کراچی کو یونس میمن کینیڈا سے آپریٹ کررہا ہے، یونس میمن ساری بڈنگ وہاں بیٹھ کر دیکھ رہا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبے میں ایک تعلیم کا پروجیکٹ 2600 بلین روپے کا 2014 میں شروع ہوا 2017 میں ختم ہوا، ان پیسوں سے دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنائی جاسکتی تھی، آر او پلانٹس کا پیسہ 1500 بلین روپے ہے، تھر کے لوگ آج بھی پانی کو ترستے ہیں، سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے بد سے بدتر بناؤ، آپ لوگ فیصلہ کرلیں کرنا کیا ہے اس طرح حکومت نہیں چلتی بلکہ حکومت ہے ہی نہیں۔

عدالت نے کہا کہ بجٹ کا مطلب اپنے لیے فنڈ مختص کرنا ہوتا ہے عوام کے لیے نہیں، لوگوں کو تو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہوتا۔

بعد ازاں عدالت نے منیر اے ملک کی عدم موجوگی کے باعث سماعت 16 جون تک ملتوی کردی۔

install suchtv android app on google app store