لاہور ہائیکورٹ نے ضمانت منسوخی کی درخواست پر مریم نواز سے تحریری جواب طلب کر لیا

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز فائل فوٹو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز

لاہور ہائیکورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست پر مریم نواز سے 7 اپریل تک تحریری جواب طلب کرلیا۔

جسٹس سرفراز ڈوگر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مریم نواز کی چوہدری شوگر مل کیس میں ضمانت منسوخی کی درخواست پر سماعت کی جس میں نیب کی جانب سے چوہدری خلیق الزماں اور فیصل بخاری عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے نیب کے وکیل نے کہا کہ مریم نواز اپنی ضمانت کا غلط استعمال کر رہی ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ مریم نواز نے کیا غلط استعمال کیا ہے ضمانت کا؟

 

جس پر وکیل نیب نے کہا کہ مریم نواز کو ضمانت کے بعد تفتیش کے لیے طلب کیا گیا تھا لیکن وہ نیب کے سامنے پیش نہیں ہوئیں۔

نیب وکیل کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے پیش ہونے کے بجائے نیب کے دفتر پر پتھراؤ کرایا نیب کو پتھر مارے جس پر نیب نے مقدمہ بھی درج کروایا ہے۔

عدالت نے نیب کے وکیل سے دریافت کیا کہ آپ کن بنیادوں پر مریم نواز کی ضمانت خارج کروانا چاہتے ہیں؟ جس پر نیب وکیل نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مریم نواز اپنی ضمانت کا غلط استعمال کر رہی ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر چوہدری خلیق الزماں نے کیس فائل کیا ہے وہ خود کیوں دلائل نہیں دے رہے جس پر فیصل بخاری نے جواب دیا کہ میں اس کیس کو دیکھ رہا ہوں اس لیے میں دلائل دے رہا ہوں۔

تاہم اس پر نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر چوہدری خلیق الزماں نے بھی دلائل دینا شروع کردیے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے مریم نواز کی ضمانت منظور کی تھی۔

نیب وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مریم نواز کے خلاف انکوائری تفتیش میں بدل چکی ہے اور تفتیش میں مریم نواز کا پیش ہونا ضروری ہے لیکن وہ پیش نہیں ہوتیں، مریم نواز کے حامیوں نے نیب پر حملہ کیا گیٹ توڑا ور بیریئرز بھی توڑے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ واقعے کے ایک سال بعد آپ ضمانت منسوخی کے لیے آ رہے ہیں پہلے نیب کو ہوش نہیں آیا؟

اس پر وکیل نیب نے جواب دیا کہ مریم نواز کے سیاسی معاملات کو نیب سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اس لیے پہلے مریم نواز کی ضمانت منسوخی کے لیے درخواست دائر نہیں کی گئی۔

بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے نیب کی درخواست مریم نواز سے تحریری جواب طلب کر لیا اور مزید کارروائی 7 اپریل تک کے لیے ملتوی کردی۔

ضمانت منسوخی کی درخواست

خیال رہے کہ 13 مارچ کو چیئرمین نیب نے پراسکیوٹر جنرل پنجاب کی وساطت سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں مریم نواز اور وزارت داخلہ کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مریم نواز چوہدری شوگر ملز منی لارنڈرنگ الزامات میں ضمانت پر رہا ہوئیں اور تب سے مسلسل ریاستی اداروں پر حملے کر رہی ہیں۔

درخواست میں مریم نواز کی چوہدری شوگر ملز منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت منسوخ کرنے کی استدعا کی گئی۔

اس میں کہا گیا کہ مریم نواز الیکڑونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ریاستی اداروں کے خلاف متنازع بیان دے رہی ہیں۔

علاوہ ازیں مریم نواز کو چوہدری شوگر ملز میں دستاویزات طلبی کے لیے 10 جنوری 2020 کو نوٹس بھجوائے گئے لیکن نوٹسز پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ مطلوبہ ریکارڈ فراہم کیا۔

درخواست میں نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کی جانب سے دستاویزات فراہم نہ کرنے پر 11 اگست 2020 کو انہیں ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا تھا۔

چیئرمین نیب نے درخواست میں کہا کہ اگست 2020 میں مریم نواز نے سیاسی طاقت کا استعمال کیا اور نیب آفس پر حملہ کروایا جس کا مقدمہ علیحدہ سے درج کیا جاچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مریم نواز پیش نہ ہو کر نیب کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں اور عوام میں یہ تاثر دے رہی ہیں کہ ریاستی ادارے غیر فعال ہو چکے ہیں۔

چوہدری شوگر ملز کیس

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران جنوری 2018 میں مالی امور کی نگرانی کرنے والے شعبے نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت چوہدری شوگر ملز کی بھاری مشتبہ ٹرانزیکشنز کے حوالے سے نیب کو آگاہ کیا تھا۔

بعدازاں اکتوبر 2018 میں نیب کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے بھائی عباس شریف کے اہلِ خانہ، ان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ غیر ملکی اس کمپنی میں شراکت دار ہیں۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میں سال 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔

اس کے بعد وہی حصص متعدد مرتبہ مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔

جس پر 31 جولائی کو تفتیش کے لیے نیب کے طلب کرنے پر وہ پیش ہوئیں تھیں اور چوہدری شوگر ملز کی مشتبہ ٹرانزیکشنز کے سلسلے میں 45 منٹ تک نیب ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق یوسف عباس اور مریم نواز نے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو پہچاننے اور رقم کے ذرائع بتانے سے قاصر رہے اور مریم نواز نوٹس میں بھجوائے سوالوں کے علاوہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکی تھیں۔

جس پر نیب نے مریم نواز کو 8 اگست کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ان سے چوہدری شوگر ملز میں شراکت داری کی تفصیلات، غیر ملکیوں، اماراتی شہری سعید سید بن جبر السویدی، برطانوی شہری شیخ ذکاؤ الدین، سعودی شہری ہانی احمد جمجون اور اماراتی شہری نصیر عبداللہ لوتا سے متعلق مالیاتی امور کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے ساتھ مریم نواز سے بیرونِ ملک سے انہیں موصول اور بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر/ٹیلیگرافگ ٹرانسفر کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔

8 اگست کو ہی قومی احتساب بیورو نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو گرفتار کر کے نیب ہیڈکوارٹرز منتقل کر دیا تھا۔

جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی تھی، جس کے بعد عدالت نے انہیں 4 ستمبر کو مزید 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔

18 ستمبر کو انہیں دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز کی توسیع کی تھی اور 25 ستمبر کو انہیں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں جب 25 ستمبر کو مریم نواز کو پیش کیا گیا تھا تو ان کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

مریم نواز کے عدالت ریمانڈ میں بھی کئی مرتبہ توسیع ہوچکی ہے اور آخری مرتبہ جب 25 اکتوبر کو انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تھا تو 8 نومبر تک ان کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع کی گئی تھی۔

6 نومبر کو لاہور کی احتساب عدالت سے رہائی کی روبکار جاری ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔

install suchtv android app on google app store