مذاکرات کا وقت ختم ہوا، ہم اسلام آباد آرہے ہیں: بلاول بھٹو

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو فائل فوٹو چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ سلیکٹرز سن لو آپ کو عوام کا فیصلہ ماننا پڑے گا، ہم اسلام آباد آرہے اور جعلی حکمران سے استعفیٰ لے لیں گے۔

مینار پاکستان میں پی ڈی ایم کے جلسے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد اسی لاہور میں رکھی تھی، شہید بینظیر بھٹو نے جنرل ضیاالحق کے خلاف جنگ کا عالم تھاما تو اس سفر کا آغاز لاہور شہر سے کیا تھا، لاہور شہر کی گلیاں، محلے، لاہور کے پل اورمینار ان داستانوں کی گواہ ہیں جو ضیا کے تاریک کے دور میں پی پی پی اورجمہوری، لاہور کے کارکنوں نے شہادتیں قبول کیں، کوڑے کھائے، جیل برداشت مگر ظلم کے خلاف سر نہیں جھکایا۔

ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر بدر اور جیالوں نے جمہوریت کے لیے کوڑے کھائے، کارکنوں نے شہادت قبول کی لیکن آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا۔

انہوں نے کہا کہ حالات واقعی برے ہیں، آج کے جعلی، نالائق، نااہل اور ناجائز حکمرانوں کو آپ ان کو نہ صرف دیکھ رہے ہو بلکہ بھگت رہے ہو، دھمکی گالم گلوچ کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں ہے، ان کے پاس نہ عقل اور نہ تاریخ کا علم ہے لیکن ہم کسی دھمکی، کسی آمر سے نہیں ڈرے، ہم کشتیاں جلا کر نکلے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جب عوام کسی تحریک کا اس حد تک مضبوطی سے ساتھ دیتی ہے تو ظلم کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں اورمنزل نظر آجاتی ہے اوریقین دلاتا ہوں کہ آپ کی جیت اور فتح کی صبح جلد ہونے والی ہے، یہ کٹھ پتلی اور سلیکٹڈ حکمران جلد گھر جانے والا ہے۔

انہوں نے کہ ہمارے دکاندار، محنت کش سب پریشان ہیں کہ ہمارا حال یہ ہے تو مستقبل کیسا ہوگا، ہمارا حال تاریک ضرور ہے لیکن ہمارا مستقبل روشن ہے، پاکستان میں تاریخی مہنگائی اور بے روزگاری ہے، صنعت پر تالا لگا ہوا، ٹرانسپورٹر کا پہیہ جام ہے اور ان حکمرانوں کو عوام کا درد نہیں ہے کیونکہ یہ ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں نہیں بلکہ کسی اور کی وجہ اور امپائر کی انگلی کے اشارے کی وجہ سے حکومت ملی ہے۔

چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے، نالائق، نااہل وزیراعظم نے پنجاب کی حکومت ایک کٹھ پتلی کے کٹھ پتلی کے حوالے کی ہے، ہم نہ اس کٹھ پتلی کو مانتے ہیں اور اس کٹھ پتلی کے کٹھ پتلی کو مانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس جمہوریت میں ہمارا خون شامل ہے اور اس کا دفاع بھی اپنے خون سے کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ کان کھول کر سن لو، آپ کو عوام کی آواز سننا پڑے گی، عوام کا فیصلہ ماننا پڑے گا، اب کوئی راستہ نہیں ہے، مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے، اب لانگ مارچ ہوگا، اسلام آباد! ہم آرہے ہیں، اسلام آباد پہنچ کر نااہل، ناجائز اور سلیکٹڈ وزیراعظم کا استعفیٰ چھین کر رہیں گے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، فون کرنا اور رابطہ کرنا بند کریں، ہمارے درمیان کوئی دراڑ نہیں ہوگی اور ہم سب مل کر کٹھ پتلی کو بھگائیں گے، اس سے بھگا کر پھر بات ہوسکتی ہے، آپ کو عوام کا فیصلہ سننا پڑے گا، گلگت سے لے کر لاہور، لاہور سے کراچی، کراچی سے کوئٹہ اورکوئٹہ سے پشاور تک ایک آواز گونج رہی ہے کہ میرے ووٹ پر ڈاکا نامنظور، لاہور پر ڈاکا، پنجاب پر ڈاکا، پنجاب پر ڈاکا، جمہور پر ڈاکا، آئین پر ڈاکا نامنظور۔

جلسے کے آخر میں آمروں کی نماز جنازہ پڑھیں گے، اختر مینگل

بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے کہا کہ میں آج کے جلسے کے منتظمین، پاکستان مسلم لیگ (ن) اورپی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو مبارک باد اور سلام پیش کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ جلسوں کو جلسی کہا گیا اورمیں بھی ان کو جلسے نہیں کہتا بلکہ ان کو میں ان غیر جمہوری قوتوں، آمروں کی پیداوار کا، طاقتوں جنہوں نے 70 برسوں سے اس ملک کے آئین کو اپنےگھرکی لونڈی سمجھا ہوا ہے اور 70 برسوں سے سنگینوں سے حکمرانی ہے اور ان جلسوں کو نماز جنازہ سمجھتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس جلسے کے آخر میں مولانا فضل الرحمٰن ان آمروں اور ہمارا استحصال کرنے والی قوتوں کی نماز جنازہ بھی پڑھائیں گے۔

اختر مینگل نے کہا کہ 'بلوچستان میں جو شورش ہے کیا اس کے ذمہ دار ہم ہیں یا کوئی اور ہے، 70 برسوں میں ہم نے ایک دن بھی چین کا نہیں دیکھا، ہمارے گاؤں اجاڑ دیے گئے، ہمارے بچے چھین لے گئے، بہنوں کے سروں سے دوپٹے چھین لیے گئے، ماؤں کے سامنے ان کے نوجوان بچوں کا قتل عام کیا گیا لیکن ہم نے جمہوریت کا پرچم بلند رکھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ آج آپ جن نام نہاد حکمرانوں، خلائی مخلوق، اس قوت کے خلاف جس نے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر ہمیشہ ردی کی ٹوکری میں پھینکا ہے، اس کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ان کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی فیصلوں کا ذمہ دار کون ہے۔

یہ بیانیہ نواز شریف کا نہیں بلکہ عوام کا ہے، ساجد میر

مینار پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں پی ڈیم ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت اہل حدیث کے سربرہ ساجد میر نے کہا کہ یہ بیانیہ صرف نواز شریف نہیں بلکہ اپوزیشن، پی ڈی ایم اور عوام کا بیانیہ ہے۔

جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ ساجد میر نے کہا کہ میں لاہور کے شہریوں کو مبارک باد اور خرج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت کی تمام رکاوٹوں اور جھوٹے ڈراموں کے باوجود اور روکنے کے باوجود مینار پاکستان کے سائے میں عظیم الشان اورقابل دید جلسہ منعقد کرکے حکومت اور اس کے کارندوں کو زبردست ناکامی اور شکست دے دوچار کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا بنایا ہوا یہ نیا پاکستان کیسا لگ رہا ہے، نام نہاد پاکستان سے وہی پاکستان اچھا تھا جس میں مہنگائی آج کے مقابلے میں بہت کم تھی اور عوام دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نئے پاکستان کی حکومت قرنطینے میں ہے، معیشت کو آئی سی یو میں ڈال دیا ہے اور عوام مہنگائی اور بہت سی مشکلات کا شکار ہیں۔

ساجد میر کا کہنا تھا کہ یہ بیانیہ نواز شریف کا نہیں بلکہ پوری اپوزیشن اور پی ڈی ایم کا ہے، اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا استعمال مختلف ہوسکتا ہے لیکن اس بیانیے کی تصدیق ہر شہری کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیانیہ یہی ہے کہ اس ملک کے عوام کو اپنی حکومت اپنے ووٹوں سے منتخب کرنے کا حق اور الیکشن کا حق ملنا چاہیے، عوام کے ووٹ سے جو حکومت آئے، اس کو اور اس کے ووٹ کو عزت ملے اس کو بغیر کسی مداخلت اور بغیر رکاوٹ کے حق حکومت کے لیے آزاد ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس بیانیے کی تصدیق کراچی میں مریم نواز کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے ہوئی، اس واقعے کی تحقیقات خود فوج نے کی اور اس میں بھی اس بیانیے کی تصدیق کی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے کتاب لکھ کر تصدیق کی کہ فوج ادارے انتخابات اور حکومت کے کاروبار میں آج تک مداخلت کرتے آئے ہیں۔

ساجد میر نے کہا کہ یہی وہ مداخلت ہے جس کو ختم کرنے کے لیے ہم میدان میں آئے ہیں، ووٹ کو عزت دے کر عوام کو حق حکومت واپس دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کی مدد سے ہم اس بیانیے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

افتخار حسین نے قرار دادیں پیش کیں

اے این پی کے سیکریٹری جنرل اور پی ڈی ایم کے ترجمان نے قرار داد پیش کی اور کہا کہ اس عظیم الشان کے توسط سے اس حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم پاکستان کی وفاقیت کی علامت ہے، اس کو کسی صورت نہ چھیڑا جائے اور صوبائی خود مختاری کو نہ چھیڑا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بے گناہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے، بے گناہ ہوتو رہا اور اگر گناہ گار ہوں تو سزا دی جائے، پمز ہسپتال میں ایک آر ڈیننس جاری ہوا ہے جہاں ڈاکٹروں اور ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں اور اس کو جلدی واپس لیا گیا۔

افتخار حسین نے کہا کہ گوادر شہر کے گرد لگائی گئی باڑ کی مذمت کرتے ہیں اور اس کو جلد از جلد ہٹایا جائے، کورونا اور وبا سے جان بچائی جائے، ماسک، سنیٹائزر کو استعمال کیا جائے لیکن ہم عمرانی کورونا کو نہیں مانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کا جلسہ ہوا نہیں تھا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ جلسہ ناکام ہوگیاہے، میں ان سے کہتا ہوں کہ یہاں کر عوامی سمندر دیکھو، لاہور نے آج دکھا دیا ہے، لاہور والو تم نے کر کے دکھایا ہے۔

حالات انقلاب کے لیے سازگار ہیں، محمود خان اچکزئی

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن بات کرنا چاہتے ہیں تو ان سے کریں، اگر وہ نہیں مانتے ہیں تو ترکی کے طرز پر انقلاب کی بات پکی ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالات انقلاب کے لیے پکے ہیں، اگر ہماری اسٹبلشمنٹ پیچھے نہیں ہٹی تو مریم نواز آپ رہنمائی کریں، ہم آپ کا بھرپور ساتھ دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترکی کے طرز پر اس اسٹبلشمنٹ کے خلاف پر پورے پاکستان کو جلسہ گاہ میں تبدیل کرتے ہیں پھر دیکھیں خلق خدا نہ کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بالکل انقلاب فرانس کی طرح تاریخ نے مریم نواز، بلاول بھٹو اورمولانا فضل الرحمٰن کو ایک موقع دیا ہے، بسم اللہ کیجیے، عوامی انقلاب، اسلامی انقلاب اور غریبوں کے انقلاب کی رہبری کریں۔

عدم تشدد کی بات کرنے والوں کو غدار قرار دیا گیا، امیر حیدر ہوتی

اے این پی کے رہنما امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ لاہور آپ کا شکریہ ہم پختون وفاداری کی قدر کرتے ہیں اور ہمیں آپ لوگوں کی وفاداری کی قدر ہے اورلاہور نے آج ثابت کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کا ایک اقامے کی بنیاد پر ارشد ملک جیسے جج کے ذریعے نااہل کیا گیا، ان کی بیٹی کو ان کے سامنے گرفتار کیا گیا تاکہ وہ ان کی کمزوری بنے لیکن وہ ان کی طاقت بن گئی۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کی خدمت کرنے والے اور ملک کے سب سے محنتی وزیراعلیٰ شہباز شریف کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور ان کے بیٹے کو بھی قید کرکے پنجاب ایک ایسے آدمی کے حوالے کردیا گیا جو یونین کونسلر منتخب نہیں ہوسکتا۔

امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ سو سال قبل باچاخان نے عدم تشدد کی بات کی لیکن ان پر تشدد ہوا اور انہیں غدار قرار دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جو ظلم اور ناانصافی ہورہی ہے، اس سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ جو بات باچاخان نے آج سے کئی 80، 90 سال پہلے کہی تھی وہ سچ ثابت ہو رہی ہے۔

قبل ازیں جلسہ گاہ پہننچے سے قبل پی ڈی ایم کے صدر اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے صدر سردار اختر مینگل اور عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق کے گھر پہنچے جہاں انہیں ظہرانہ دیا گیا۔

اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ریلی کی قیادت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق کے گھر پہنچے، جس کے بعد وہاں مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں اہم اجلاس ہوا۔

پی ڈی ایم رہنماؤں کے اجلاس میں آئندہ کے لائحہ سے متعلق مشاورت کی گئی، جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنما سردار ایاز صادق کی رہائش گاہ سے جلسہ گاہ روانہ ہوئے۔

خیال رہے کہ آج کا جلسہ اپوزیشن کی حکومت مخالف شروع کی گئی تحریک کے پہلے مرحلے کا آخری جلسہ ہے جس کے بعد یہ اپوزیشن اتحاد دوسری حکمت عملی اپنانے کا ارادہ رکھتا ہے، جلسے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی جدوجہد کے ’فیصلہ کن مرحلے‘ کا اعلان بھی متوقع ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حکومت مخالف جلسوں کا باقاعدہ آغاز 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ جلسے سے ہوا تھا جس کے بعد یہ اتحاد کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ملتان میں جلسے کرچکا ہے۔

اپوزیشن اتحاد نے آج کے اس جلسے کے لیے سیاسی ماحول کو کافی گرم کیا ہوا ہے اور اس سلسلے میں پی ڈی ایم میں شریک جماعتوں کے قیادت نے مختلف ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

وہی دوسری جانب اگرچہ حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم کے جلسے کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم حکومت نے جلسے کے لیے کرسیاں، میز، ٹینٹ وغیرہ فراہم کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔

حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر پی ڈی ایم کو جلسے مؤخر کرنے کا کہا گیا تھا تاہم اب بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے آخری لمحات میں اتوار کے جلسے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور وہ جلسے میں آنے والے شرکا کو روکنے کا ارادہ نہیں رکھتی اور اپوزیشن کو یہ موقع دینا چاہتی ہے وہ اکتوبر 2011 میں اسی مقام پر کیے گئے عمران خان کے جلسے سے مقابلہ کرے۔

تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم کو جلسے کے لیے فری ہینڈ دینے پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد کا اگلا مرحلہ جنوری میں شروع ہوگا جس میں پی ڈی ایم آخری شو سے قبل ملک بھر میں 16 مزید ریلیوں کا منصوبہ رکھتی ہے۔

آخری شو میں پی ڈی ایم جماعتوں کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفے شامل ہیں۔

لیگی رہنما کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ جنوری میں پی ڈی ایم لانگ مارچ سے قبل کچھ ’پردے کے پیچھے‘ پیش رفت ہوسکتی ہے۔

 پی ڈی ایم کیا ہے؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والا 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو اپنے ’ایکشن پلان‘ کے تحت 3 مرحلے پر حکومت مخالف تحریک چلانے کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔

ایکشن پلان کے تحت پی ڈی ایم نے رواں ماہ سے ملک گیر عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہروں، دسمبر میں ریلیوں اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف ایک ’فیصلہ کن لانگ مارچ‘ کرنا ہے۔

مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے پہلے صدر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف سینئر نائب صدر ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اس کے سیکریٹری جنرل ہیں۔

اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اس اتحاد میں بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں، تاہم جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔

install suchtv android app on google app store