فاٹا انضام کے خلاف جے یو آئی (ف) کا احتجاج

فاٹا انضام کے خلاف جے یو آئی (ف) کا احتجاج فاٹا انضام کے خلاف جے یو آئی (ف) کا احتجاج

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے حوالے سے پارلیمنٹ سے بل پاس ہونے کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کا شدید احتجاج جاری۔

خیال رہے کہ فاٹا کا خیبرپختونخوا سے انضمام کے حوالے سے پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے بل کی آج صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں توثیق کی جائے گی۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے کارکنان نے خیبرپختونخوا اسمبلی جانے والی سڑک پر ٹائر جلائے اور اسے دھرنا دے کر بلاک کر دیا۔

اطلاعات کے مطابق جے یو آئی (ف) کے کارکنان صوبائی اسمبلی کے دروازوں کے قریب بھی دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اسمبلی میں داخلی راستہ مکمل طور پر بند ہوگیا ہے۔

کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری سمیت واٹر کینن کو بھی طلب کرلیا گیا ہے جو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے بالکل تیار ہے۔

اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ اور ہاتھاپائی کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں۔

ادھر امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر احتجاج جاری رہا تو صوبائی اسمبلی میں فاٹا انضمام کے بل کی توثیق کے لیے ہونے والا اجلاس تاخیر سے شروع کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ 24 مئی کو فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضام کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم کا بل حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کے درمیان افہام و تفہیم کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جسے بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔

قومی اسمبلی میں فاٹا کے انضمام کے حوالے سے ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بھی شرکت کی۔

قومی اسمبلی اجلاس میں فاٹا اصلاحات بل کی منظوری کے لیے رائے شماری کی گئی جس کی حمایت 229 میں اراکین نے ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

ایک روز بعد سینیٹ میں بھی 31ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی۔

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد کیا ہوگا؟

واضح رہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔

اس کے علاوہ ’ایف سی آر‘ قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔

فاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابلِ تقسیم محاصل سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔

فاٹا بل کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشتیں 12 سے کم ہوکر 6 ہوجائیں گی، جبکہ خیبر پختونخواہ کا قومی اسمبلی میں موجودہ حصہ 39 سے بڑھ کر 45 نشستیں ہو جائے گا۔

سینٹ میں فاٹا کی 8 نشتیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی۔

اسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔

بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے، اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔

اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔

2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے، اور فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔

فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16 عام نشستیں، خواتین کے لیے 4 نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی۔

install suchtv android app on google app store