پی ڈی ایم مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار

پی ڈی ایم کا مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار فائل فوٹو پی ڈی ایم کا مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی طرف سے عمران حکومت کو سلیکٹڈ حکومت کہہ کر عوام کے مفادات اور حقوق کی جنگ کا نعرہ لگا کر عمران حکومت کو گھر بھیجنے کا دعوی کیا گیا۔ پھر گیارہ جماعتوں کا اتحاد دس جماعتوں کا اتحاد رہ گیا، اور ابھی چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی نے بھی الگ ہونے کا اعلان کر دیا جس کا فائدہ عمران حکومت کو ہی ہوا۔

پی ڈی ایم میں موجود دس جماعتوں میں سے دو جماعتیں ایک طرف اور آٹھ جماعتیں دوسری طرف تھیں۔ پی ڈی ایم کے آغاز میں دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کے لیے اپنا ماضی بھلانے کی بات توکی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی ماضی کی لڑائیوں کے طعنے زور پکڑتے گئے۔

طعنوں اور الزام تراشی کی بوچھاڑ نے ایسا رخ اختیار کیا کہ عمران کو سلیکٹڈ کہنے والے ایک دوسرے کو ہی سلیکٹڈ کے طعنے دینے لگے۔ جس سے پی ڈی ایم کو بہت بڑا نقصان ہوا اور پی ڈی ایم کی تباہ کاریوں کا آغاز ہوا، جس کا براہ راست فائدہ عمران خان کی حکومت کو ہوا۔

ٹوٹ پھوٹ کی شکار پی ڈی ایم ان دنوں سیاسی کرونا کا سہارا لے کر کورنٹائن میں ہے ۔اس انتشار کا سب سے زیادہ نقصان مولانا کو ہوا۔ مولانا فضل الرحمن کو بہت آس تھی کہ پی ڈی ایم کے دباؤ کی وجہ سے وہ مستقبل کے لیے کوئی ڈیل بنا لیں گے مگر ہوا کچھ یوں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی ذاتی لڑائیوں نے مولانا فضل الرحمن کے خوابوں کو خوابوں تک ہی محدود کر دیا۔

مولانا نے دونوں جماعتوں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی، مگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا اسٹیک مولانا سے کہیں زیادہ ہے ، اسی لیے دونوں نے مولانا کی ایک نہ سنی اور پھر مولانا نے بھی کورنٹائن ہونے کا فیصلہ کرلیا۔

سابق صدر آصف علی زرداری ہمیشہ سے ہی سیاست کے ماہر رہے ہیں، سینٹ الیکشن میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اپنے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی سیٹ سے کامیاب کروانے کے بعد پی ڈی ایم کا سہارا لیتے ہوئے چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں سید یوسف رضا گیلانی کو کھڑا کیا مگر یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہار گئے اور حکومت کے حمایت یافتہ صادق سنجرانی الیکشن جیت گئے۔

چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے بعد جب سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی بات آئی تو مسلم لیگ نواز نے اپنا امیدوار اعظم نذیر تارڑ کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کھڑا کیا مگر پاکستان پیپلز پارٹی نے اے این پی اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) جو کہ حکومتی حمایت یافتہ پارٹی تھی کی سپورٹ سے سید یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر کامیاب کروا لیا اور پی ڈی ایم کو خبر تک نہ ہونے دی۔

اس طرح ہوا کچھ یوں کہ حکومت کو گھر بھیجنے والی پی ڈی ایم ہی تباہ و برباد ہو گئی اور پھر سینیٹ میں اپوزیشن دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ایک دھڑا سید یوسف رضا گیلانی کا بن گیا اور دوسرا دھڑا اعظم نذیر تارڑ کا بن گیا۔

حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے اتحاد کرنے والےاپوزیشن کے اتحاد سے بھی محروم ہوگئے۔

اس بڑی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم نے جب اسمبلیوں سے استعفے دینے کی بات کی تو پیپلز پارٹی کو اپنی سندھ میں حکومت نظر آنے لگی جس سے اس نے اپنی راہیں جدا کر لیں یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں اُنھیں ایک صوبے کی حکومت سے بھی نہ ہاتھ دھونے پڑھ جائیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کلمہ شہادت بلند کرتے رہے مگر مولانا کو پیپلزپارٹی نے جاتے جاتے تحفے میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے استعفے بھجوا دیے اور مولانا کی یہاں بھی ایک نہ سنی۔

اس کے بعد مولانا اور پی ڈی ایم ابھی تک قرنطینہ میں ہیں۔ اب پی ڈی ایم کا مستقبل قرنطینہ سے نکلنے کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ چھبیس اپریل کے اجلاس سے متعلق بھی یہی خبریں آرہی ہیں کہ پی ڈی ایم مخمصے کا شکار ہے۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ سیاست میں کوئی بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔

install suchtv android app on google app store