خسرو بختیار نے وزیراعظم سے شوگر ایڈوائزری بورڈ دوسری وزارت کو منتقل کرنے کی درخواست کر دی

خسرو بختیار فائل فوٹو خسرو بختیار

وفاقی وزیر صنعت وپیداوار خسرو بختیار نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھا ہے کہ مفادات کے ٹکراؤ سے بچنے اور کسی دباؤ کے بغیر کام کرنے کے لیے شوگر ایڈوائرزی بورڈ دوسری وزارت کو منتقل کردی جائے۔

خسرو بختیار کی جانب سے 16 اپریل کو لکھےگئے خط میں انہوں نے وزیر صنعت و پیداوار مقرر کرنے کو قابل فخر قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے جو ذمہ داری دی گئی اس حوالے سے 'سنجیدہ ذمہ داری' پر میری بھرپور توجہ ہے اور اپنے کام میں ایمان داری کو یقینی بنانے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔

وفاقی وزیر نے لکھا کہ 'پاکستان میں شوگر اہم پیداوار ہے اور عوام کی حالیہ تشویش کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ کی ذمہ داری پاکستان کے عوام کے مفاد کے علاوہ کسی اور طرف نہ سمجھا جائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کسی قسم کے ممکنہ مفادات کے ٹکراؤ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور شوگر ایڈوائزری بورڈ کو عوامی شکایات سے بالاتر ہو کر کام کرنے کے لیے آزاد رکھنے کی خاطر میں درخواست کرتا ہوں کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ کو وفاقی حکومت کی دوسری وزارت کو منتقل کردیا جائے'۔

خسرو بختیار نے کہا کہ شوگر ایڈوازئزری کا معاملہ میری شہرت اور بورڈ کی آزادانہ کارکردگی کےلیے نہایت اہم ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے 19 اپریل کو خسرو بختیار کی جانب سے وزیراعظم کو اس معاملے پر خط لکھنے کی تصدیق کی گئی تھی۔

خط کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'وزیراعظم نے اس کو دیکھا ہے اور وفاقی وزیر صنعت و پیداوار کے مؤقف سے اصولی اتفاق کرتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ صنعت و پیداوار ڈویژن اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کرکے شوگر ایڈوائزری بورڈ مناسب وزارت یا ڈویژن کو منتقل کرنے کے لیے سمری پیش کریں'۔

خسرو بختیار کو مذکورہ وزارت دینے پر پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر میان رضا ربانی نے تنقید کرتے ہوئے اس کو 'براہ راست مفادات کا ٹکڑاؤ' قرار دیا تھا کیونکہ خسرو بختیار اور ان کا خاندان شوگر کی صنعت سے منسلک ہیں۔

شوگر کمیشن کی رپورٹ میں بھی اس حوالے سے نشان دہی کی گئی تھی۔

رضاربانی نے کہا تھا کہ خسرو بختیار کو چینی اور گندم کے بحران کے حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی رپورٹ کی روشنی میں وزارت خوراک کی وزارت سے ہٹانے کے ٹھیک ایک سال بعد اہم وزارت دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'خسرو بختیار کو وزارت خوراک سے مفادات کے ٹکراؤ کے باعث ہٹایا گیا تھا تو وزارت صنعت و پیدارات میں وہ معاملہ کیسے ختم ہوا حالانکہ اس کا شوگر انڈسٹری سے براہ راست تعلق ہے'۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس شوگر اور گندم کے حوالے سے دو الگ الگ رپورٹس جاری ہوئی تھیں، جس میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مونس الہٰ اور ان کے رشتہ داروں کا نام اسکینڈل میں سامنے آیا تھا۔

وزیراعظم کی ہدایت پر رپورٹ جاری کی گئی تھی اور انہوں نے بحران میں ملوث افراد کے خلاف پارٹی سے بالاتر ہو کر سخت کارروائی کے احکامات دیے تھے۔

install suchtv android app on google app store