پاکستان کو تنہاء کرنے کا خواب دیکھنے والے خود تنہاء ہو کر رہ گئے، جانیے تفصیلات

عمران خان فائل فوٹو عمران خان

ایران کی جانب سے بھارت کو چاہ بہار ٹرین منصوبے سے الگ کرنے ‘بیجنگ اور تہران کی بڑھتی ہوئی قربتیں اورپاکستان نے اپنی پالیسیوں میں تبدیل کرتے ہوئے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کررہا ہے جس سے پاک ایران سرحد محفوظ ہوئی ہے۔

‘واشنگٹن کی جانب سے تہران پر پابندیوں سے روس ‘چین‘پاکستان اور ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک قریب آرہے ہیں۔

نجی خبر رساں ادارے کی جانب سے جاری تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹس کی کامیابی کی صورت میں ایران کے ساتھ امریکا کی پرانی شراکت داری بحال ہونے کا امکان ہے۔ اسی طرح یورپی ممالک ایران کے ساتھ اٹیمی معاہدے پر عمل پیرا ہیں اور وہ واشنگٹن پر بھی دباﺅ ڈالتے رہے ہیں کہ وہ یکطرفہ طور پر ختم کیے گئے معاہدے کو بحال کرے۔ 2016 میں جب چاہ بہار بندرگاہ منصوبے پر ایران اور بھارت کے مابین معاہدے کا اعلان ہوا تو پاکستان کے مختلف حلقوں میں کافی تشویش پیدا ہوگئی تھی۔

اس منصوبے کو بھارت کی جانب سے گھیرا بندی کی حکمت عملی تصور کرتے ہوئے نہ صرف گوادر کے ممکنہ حریف کے طور پر دیکھا گیا بلکہ اسے خطے میں بڑھتے بھارتی اثر و رسوخ کے اشارے اور پاکستان کے مغربی سرحدی علاقے میں ایک ممکنہ چوکی بھی سمجھا گیا۔ اگر اس منصوبے کا وسیع جائزہ لیا جائے تو یہ پاکستان کو افغان تجارت سے الگ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا کیونکہ یہ منصوبہ چاہ بہار سے زاہدان اور پھر وہاں سے افغانستان میں زنرنج تک ریل راستے کے ذریعے پاکستان سے ہونے والے افغان ٹرانزٹ تجارتی عمل کی اگرچہ مکمل طور پر جگہ تو نہیں لیتا لیکن کم از کم اسے محدود ضرور کردیتا۔

افغانستان میں بھی روس اور چین اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک امن چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں ایک امن معاہدے پر بات چیت شروع ہوئی تھی اور 2020میں لویہ جرگہ اور قومی حکومت بنانے کے لیے معاملات کو حتمی شکل دی گئی تھی، تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر حالات خراب ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ تاخیرکا شکار ہوگیا ہے۔ بھارت ایران اور افغانستان میں اپنے قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان میں تخریب کاری کرواتا رہا ہے مگر اب معالات تبدیل ہورہے ہیں اور پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدی معاملات میں تبدیلی آرہی ہے اور دونوں سرحدیں اب اسلام آباد کے لیے محفوظ ہورہی ہے۔ آنے والے چند سالوں میں توقع کی جارہی ہے کہ روس ‘چین اور ایران کے تعاون سے پاکستان کی رسائی یورپ اور وسط ایشیائی ریاستوں تک ہوجائے گی۔

دوسری طرف ایران نے ریلوے منصوبے سے بھارت کو الگ کرنے اور تن تنہا اس پر کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایرانی حکومت کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے میڈیا رپورٹس نے دعوٰی کیا کہ بھارت کو منصوبے سے باہر کرنے کی وجہ بھارت کی امریکا سے بڑھتی قربتوں کے باعث اس منصوبے کے اپنے حصے کا کام شروع کرنے میں سستی اور پابندیوں کا خوف ہے۔ حالانکہ امریکا کی جانب سے چاہ بہار منصوبے کو خصوصی چھوٹ بھی دی گئی تھی۔

اس کے علاوہ پاکستان میں ایران کے سفیر محمد علی حسینی کا ایک بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے بظاہر بھارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چند غیر ملکی حکومتیں ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو لے کر ہچکچاتی ہیں اور انہیں عام بات چیت کے لیے بھی دیگر کی اجازت درکار ہوتی ہے، یقیناً یہ حکومتیں ایسے طویل مدتی تعاون پر مبنی معاہدوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کی صلاحیتوں کو پیدا نہیں کرپائیں گی۔

بعدازاں ایرانی پورٹس اور میری ٹائم تنظیم کے نائب فرہاد منتصر کا بیان بھی سامنا آیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت ایسی کسی ڈیل کا کبھی حصہ ہی نہیں رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چاہ بہار میں ایران اور بھارت کے تعاون کے ساتھ پابندیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے سفارتی اشارے ملنا اور تردیدوں کا سامنے آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں مگر یہ بات واضح ہے کہ علاقے کا منظرنامہ بھارت کے لیے بدل رہا ہے۔

جہاں تک ایران کی بات ہے تو اسے ایک ریلوے منصوبے سے کہیں زیادہ فکر اس جامع ڈیل کی ہے جو چین کے ساتھ طے پائی گئی ہے کہا جا رہا ہے کہ ”وسیع اقتصادی و سلامتی کی شراکت داری“ پکارے جانے والے اس معاہدے کے تحت 400 ارب ڈالر سے زائد رقم کی سرمایہ کاری کی جائے گی اور عسکری شعبے میں بھی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔

install suchtv android app on google app store