امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا یوم ولادت باسعادت، پاکستان سمیت دنیا بھر میں جشن و محافل کا سلسلہ جاری

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا یوم ولادت باسعادت فائل فوٹو امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا یوم ولادت باسعادت

مولود کعبہ، جانشین پیغمبر، فاتح خیبر و خندق، مولائے متقیان، مولی الموحدین امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جشن و محافل کا سلسلہ جاری ہے۔

دنیا میں یہ مقام اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت ابوطالب کے لعل حضرت علی علیہ السلام کو عطا کیا ہے کہ 13 رجب کے دن آپ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی جبکہ 21 رمضان کو شہادت بھی خانہ خدا مسجد کوفہ میں ہوئی اور یوں ولادت سے شہادت تک علیؑ کا ہر لمحہ رضائے الٰہی اور خوشنودی پروردگار کے لئے بسر ہوا۔

پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کا نام علی رکھا،حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔

آپ کے مشہور القاب امیر المومنین، مرتضی، اسداللہ،یداللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابوالحسن و ابو تراب ہیں۔

حضرت علی (ع) ھاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور والده دونوں ہاشمی ہیں،جواں مردی، دلیری، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (ع) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔

پیغمبر اکرم (ص) اپنی زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سے مدینے کی طرف پلٹ رہے تھے،جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین آیہ بلغ لیکر نازل ہوئے،پیغمبر اسلام (ص) نے قافلے کو ٹہرنے کا حکم دیا،پیغمبر اکرم (ص) اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور حضرت علی (ع) کے ہاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا،” ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں“،رسول الله (ص) نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی۔

حضرت علی علیہ السّلام کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول خدا ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے،کبھی یہ کہتے تھے کہ “علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں”۔ کبھی یہ کہا کہ “میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے”۔ کبھی یہ کہا “آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے”۔ کبھی یہ کہا “علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی”۔ کبھی یہ کہ “وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں”یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا،عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے،سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کا دروازہ کھلا رکھا گیا،جب مہاجرین و انصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا۔

سن ۳۵ ہجری قمری میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کا منصب حضرت علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا تو پہلے تو آپ نے انکار کردیا،لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھا تو آپ نے اس شرط سے منظور کرلیا کہ میں قرآن اور سنت پیغمبر (ص) کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رعایت سے کام نہ لوں گا،جب مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کرلیا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی،مگر زمانہ آپ کی خالص دینی حکومت کو برداشت نہ کرسکا۔

مولا علی علیہ السلام نے مسلموں کے ساتھ غیرمسلموں میں بھی خوب پذیرائی حاصل کی،اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی نے بھی امام علیؑ کی طرز حکمرانی کو آئیڈیل قرار دے کر بارہ سال پہلے اپنی رپورٹ میں عرب ڈکٹیٹرز کو اپنا قبلہ درست کرنے کا کہا تھا۔

install suchtv android app on google app store