وزیراعظم نے سفارش کی، صدر نے منظوری، مگر کسی نے پڑھنے کی زحمت نہیں کی، بڑے بیان نے سب کو چونکا دیا

وزیراعظم عمران خان اور صدر عارف علوی فائل فوٹو وزیراعظم عمران خان اور صدر عارف علوی

وزیراعظم نے سفارش کی، صدر نے منظوری دے دی، مگر کسی نے پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے اہم ریمارکس دیے۔

چیف جسٹس پاکستان کے اہم ریمارکس
میڈیا کو سمجھ نہیں آئی، ہم نے ازخود نوٹس نہیں لیا۔
کابینہ نے ہماری غلطیوں کی نشاندہی کو تسلیم کی۔
جو عدالت نے کل غلطیاں نکالی تھیں انہیں تسلیم کرکے ٹھیک کیا گیا۔
ماضی میں پانچ 6 جرنیل خود کو دس دس سال ایکسٹینشن دیتے رہے۔
جنرل چار 5 مرتبہ خود کو توسیع دیتے رہتے ہیں، یہ معاملہ اب واضح ہونا چاہیے۔
اگر جنگ ہورہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جاسکتی ہے۔
پہلے یہ سوال اٹھایا نہیں گیا، اب اٹھا ہے تو اس کے تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل 4 سال بعد ریٹائر ہوتا ہے اور آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر ہی نہیں۔
جو ترمیم کرکے آپ (اٹارنی جنرل) آگئے ہیں وہ آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں۔
ابھی تک ہمیں یہ اسکیم ہی سمجھ نہیں آئی کہ کن رولز کے تحت توسیع ہوئی۔
دیکھتے ہیں بحث کب تک چلتی ہے، ابھی تک تو ہم کیس سمجھ ہی رہے ہیں۔
ماضی میں 6 سے 7 جنرل توسیع لیتے رہے کسی نے پوچھا تک نہیں۔
وزیر اعظم نے نئی تقرری کی سفارش کی اور صدر نے توسیع دی، کسی نے پڑھنے تک کی زحمت نہیں کی۔
لگتا ہے وزارت قانون نے بہت محنت سے یہ معاملہ خراب کیا۔
اسسٹنٹ کمشنر کو ایسے تعینات نہیں کیا جاتا جیسے آپ آرمی چیف کو تعینات کر رہے ہیں۔
آپ نے آرمی چیف کو شٹل کاک بنا دیا ہے۔
فروغ نسیم صاحب آپ اپنا مسئلہ حل کر کے آئیں، یہ نہ ہو کہ آپ کے مختار نامے پر سارا دن گزر جائے، ہم سائیڈ ایشو پر دن نہیں گزار سکتے، ایسا نہ ہو کہ آپ کے وکالت نامے کے چکر میں نقصان فوج کا ہو۔
اگر ایسے ہی نوٹی فکیشن ہوتے رہے تو ہمارے پاس مقدمات کی بھرمار لگ جائے گی، فوج باعزت ادارے کے حوالے سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے، فوج کا کام نہیں کہ آکر ڈرافٹ تیار کرے۔
جائیں دو دن ہیں کچھ کریں، ساری رات اکٹھے ہوئے اور کابینہ کے دو سیشن ہوئے، ہم نے سوچا تھا کہ اتنے دماغ بیٹھے ہیں، اتنے غور کے بعد یہ چیز لے کر آئے ہیں ،ہمارے لیے تکلیف کی بات ہے۔
وزارت قانون کیا ایسے قانون بناتی ہے، اسسٹنٹ کمشنر کو ایسے تعینات نہیں کیا جاتا جیسے آپ آرمی چیف کو تعینات کر رہے، آپ نے آرمی چیف کو شٹل کاک بنا دیا ہے۔
ہم آپ کو کل تک کا وقت دے رہے ہیں حل نکال لیں، بصورت دیگر ہم نے آئین کا حلف اٹھایا ہے اور ہم آئینی ڈیوٹی پوری کریں گے۔
حکومت صدر اور وزیر اعظم کی ایڈوائس اور نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کروائیں۔
آرمی آفیسر کے حلف میں ہے کہ "اگر جان دینا پڑی تو دوں گا" یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے کہ "خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا" بہت اچھی بات ہے اگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا جائے۔
گزشتہ روز کے ریمارکس
وزیراعظم اس تقرری کے مجاز نہیں یہ صدر کا اختیار ہے۔
اس معاملے میں جو کیا گیا وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے گھوڑا گاڑی کے آگے گاڑی لگانا اور گھوڑے کو پیچھے باندھنا۔
ایسے تو مسلح افواج میں کام کرنے والا ہر شخص تقرری چاہے گا۔
اس میں سیکیورٹی صورتحال کی اصطلاح جو استعمال کی گئی وہ مبہم ہے۔
مسلح افواج کسی بھی خطرے کی صورت میں باڈی کے طور پر کام کرتی ہیں، کوئی اکیلا کام نہیں کرتا۔
اگر یہ روایت ڈالی گئی تو پھر مسلح افواج کا ہر شخص اہم ہے اس کی مدت میں توسیع کرنا ہوگی۔
یہ سارا عمل الٹ کیا گیا، پہلے کابینہ کی منظوری اور پھر سارا معاملہ ہونا چاہیے۔
آرمی چیف کی توسیع کی مدت کیسے فکس کرسکتے ہیں؟ یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ تین سال تک ہنگامی حالات رہیں گے؟
جمہوریت میں یہ فیصلے اکثریت رائے سے ہوتے ہیں، جن ارکان نے جواب نہیں دیا انہوں نے 'نہ' بھی تو نہیں کی، کیا حکومت کابینہ ارکان کی خاموشی کو ’ہاں‘ سمجھتی ہے؟

install suchtv android app on google app store