پاکستان میں مارخور اور انڈس ڈولفن بدستور معدومیت کے خطرے سے کیوں دوچار ہیں ؟

انڈس ڈولفن اور مارخور فائل فوٹو انڈس ڈولفن اور مارخور

انڈس ڈولفن اور مارخور ابھی بھی بین الااقوامی ادارے آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ میں شامل ہیں۔


انڈس ڈولفن معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے جبکہ مارخور کی مجموعی آبادی میں بہتری آئی ہے جس کے بعد اس کو ایک درجہ بہتری دی گئی اور اس کو ’معدوم ہونے کے خطرے‘ سے نکال کر ’معدوم ہونے کے خطرے کے قریب‘ کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

آئی یو سی این کمیشن آن ایکو سسٹم مینجمنٹ کے ممبر ندیم میر بحر نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈس ڈولفن کی پاکستان اور انڈیا میں مجموعی آبادی پانچ ہزار سے بھی کم ہے۔ اسی طرح مارخور کی تعداد پر آئی یو سی این کے اعدادوشمار کی تجدید سنہ 2015 میں کی گئی تھی جس کے مطابق افغانستان، انڈیا، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان اور پاکستان میں ماخور کی مجموعی تعداد 5754 بتائی گئی تھی۔

وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی امین اسلم نے گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا تھا کہ مارخور اور ڈولفن اس وقت معدومی کے خطرے سے باہر نکل چکی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ملکی سطح اس حوالے سے قابل بھروسہ اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔

ندیم میر کے مطابق آئی یو سی این ریڈ لسٹ تمام نباتات اور جنگلی حیات کی انواع کے حوالے سے رپورٹ تیار کرتا ہے۔

اس رپورٹ کی تیاری کے لیے مقامی ذرائع، حکومتی اداروں اور مقامی تحقیق کاروں کی رپورٹوں کا جائزہ لیا جاتا ہے جس کے بعد بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم اس حوالے سے فیصلہ کرتی ہے اور اس کے اعدادوشمار جاری کرتی ہے۔ یہ اعدادوشمار عموماً حکومتوں، تحقیق کرنے والوں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کے لیے اس حوالے سے مزید اقدامات کے لیے رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔

ندیم میربحر کے مطابق آئی سی یو این کا ڈیٹا کسی بھی جنگلی حیات کی قسم کی مجموعی صورتحال پر مبنی ہوتا ہے۔

پاکستان میں مارخور
مارخور پر تحقیق کرنے والے گلگت بلستان کے محکمہ وائلڈ لائف کے ڈی ایف او جبران حیدر کے مطابق پاکستان میں دو دہائیوں کے دوران مارخور کی تعداد زیادہ ہوئی ہے۔ پاکستان میں سنہ 2008 میں یہ تعداد 2575 تھی اور اب یہ تعداد 4500 کے لگ بھگ ہے۔

پاکستان میں اس وقت مارخور کی آبادی کا تیسرا بڑا حصہ بستا ہے۔

پاکستان میں مارخور کی بڑی تعداد صوبہ خیبر پختونخوا اور پھر گلگت بلتستان میں ہے۔

پاکستان میں مارخور کی بڑھتی تعداد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مارخور کی آماجگاہوں کو محفوظ بنانے، غیر قانونی شکارکے خلاف سخت کاروائیوں کے علاوہ مقامی باشندوں میں اس کے تحفظ کے لیے شعور پیدا کر کے ان کو مارخور کے تحفظ کی سرگرمیوں میں براہ راست شریک کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مارخور پاکستان میں ابھی بھی معدومیت کے خطرے سے باہر نہیں نکلا ہے اور اگر اس کے تحفظ کے اقدامات میں کمی ہوئی تو یہ دوبارہ معدوم ہونے کے خطرے کا شکار ہو سکتا ہے۔

مالاکنڈ ڈویثرن میں مارخور کی آماجگاہیں ختم ہو چکی ہیں۔ وہاں سے طویل عرصے سے مارخور کی موجودگی کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ ڈی آئی خان میں بھی آماجگاہوں میں بڑی کمی آئی ہے اور حالیہ دونوں میں ان کی تعداد کم ہوئی ہے۔

کشمیر میں بھی آماجگاہیں ختم ہونے کی رپورٹس موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں کچھ آماجگاہیں محفوظ ہیں جن پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں انڈس ڈولفن
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے مطابق اس وقت ملک میں انڈس ڈولفن کی تعداد تقریباً 1800 ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سینیئر ڈائریکٹر ڈاکٹر مسعود اشرف کے مطابق ڈولفن اس وقت بھی خطرے کا شکار ہے کیونکہ دریائے سندھ میں موجود اس کی ستر سے اسی فیصد آماجگاہیں تباہ ہو چکی ہیں، جس کی بڑی وجوہات میں بیراجوں کی تعمیر، آلودگی اور غیر قانونی شکار شامل ہیں۔

تاہم چشمہ، تونسہ، گڈو اور سکھر میں اس کی آبادی بڑھ رہی ہے۔

سندھ وائلڈ لائف کے ڈائریکٹر جاوید مہر کے مطابق گڈو اور سکھر بیراج تک دریائے سندھ کا علاقہ انڈس ڈولفن کے لیے محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ اس علاقے میں سندھ وائلڈ لائف کی جانب سے رواں برس کیے گئے ایک سروے میں ڈولفن کی تعداد 1419 تھی جبکہ سنہ 2009 میں کیے جانے والے سروے میں یہ تعداد 900 کے لگ بھگ تھی۔

جاوید مہر کے مطابق ’حالیہ سروے میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی اور ہم یقین کہہ سکتے ہیں کہ ڈولفن کی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے کم نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ستر اور ساٹھ کی دہائی میں انڈس ڈولفن کی آماجگاہیں اٹک پر دریائے سندھ کے مقام سے شروع ہو جاتی تھیں۔ تاریخی طور پر انڈس ڈولفن دریائے ستلج، جہلم، راوی اورچناب میں بھی پائی جاتی تھیں۔

آئی یو سی این ریڈ لسٹ کیا ہے؟
ایسے انواع جن کے ناپید ہونے کا خطرہ موجود ہو ان کے لیے آئی یو سی این وارننگ جاری کرتی ہے۔ اس وارننگ کو ریڈ لسٹ کہا جاتا ہے۔ اس میں معدوم، قدرتی ماحول میں معدوم، معدوم ہونے کے سخت خطرے کا شکار، خطرے کا شکار، غیر محفوظ، کم دلچسی کی کیٹگریز ہوتی ہیں۔

محکمہ جنگلات گلگت بلستان کے ڈی ایف او جبران حیدر کے مطابق کسی بھی جانور کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے سے قبل آئی سی یو این بہت احتیاط سے سروے کرتا ہے۔ بعض اوقات یہ سروے خود آئی سی یو این کرواتا ہے اور بعض اوقات مقامی ممالک میں موجود سروے اور تحقیق سے مدد لیتا ہے۔

اگر کسی بھی قسم کی نوع کی آبادی 90 فیصد سے زائد کم ہواور اس کی بہت آماجگاہیں کم محفوظ ہوں تو اسے سخت خطرے کا شکار قرار دیا جاتا ہے۔

پچاس سے ستر فیصد آبادی کم ہو تو اس کو خطرے کا شکار قرار دیا جاتا ہے جبکہ جس نوع کی آبادی پچاس فیصد یا اس سے زیادہ کم ہوئی ہو اسے غیر محفوظ قرار دیا جاتا ہے۔

معدوم ہونے سے مراد مکمل خاتمہ ہے جبکہ قدرتی ماحول سے معدوم ہونا اس امر کو کہتے ہیں جب کوئی جانور قدرتی ماحول میں تو ختم ہو چکا ہو مگر کسی نہ کسی طرح محفوظ مقامات پر اس کے کچھ نشانات باقی ہوں۔

انھوں نے بتایا کہ آئی یو سی این کسی بھی نوع کو اپنی ریڈ بک میں شامل کرنے کے لیے کچھ عرصے تک اس کی مانیٹرنگ کرتا ہے۔ پہلی مرتبہ اگر اس کو ریڈ لسٹ میں شامل کر دیا جائے تو پھر دس سال تک اس کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔

install suchtv android app on google app store