پاکستان کے تعلیمی نظام کو درپیش مسائل

  • اپ ڈیٹ:
تعلیمی نظام فائل فوٹو تعلیمی نظام

تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔ یہ انسان کا بنیادی حق ہے۔ اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہے۔

تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کےلئے ترقی کی ضامن ہے۔ یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے دنیا میں اپنی جگہ اپنا نام تعلیم کی مدد سے بنایا ہمیشہ تعلیم کو اہمیت دی اور یہی ان ممالک کی ترقی کی ایک وجہ بھی ہے۔ چین، جاپان، امریکہ جیسے ممالک نے تعلیمی شعبے کو ہمیشہ ہر شعبے سے زیادہ اہمیت دی اور اس شعبے سے فائدہ بھی اٹھایا اور ترقی کی۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول، کالج، یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور سماج کا خیال رکھ سکے۔ تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوراتی ہے۔

پاکستان کا تعلیمی نظام :

دنیا کے وہ ملک جن کی معیشت تباہ ہوچکی ہے ان کا دفاعی بجٹ تو اربوں روپے کا ہے، مگر تعلیم کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے، یہی ان کی تباہی کا باعث ہے۔ اگر کوئی بھی ملک چاہتا ہے کہ وہ ترقی کرے تو ان کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیمی اداروں کو مضبوط کریں۔ آج تک جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ صرف علم کی بدولت کی ہے۔ صرف علم حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ اس کا اطلاق بھی ضروری ہے۔

پاکستان کے 16-2015 تعلیمی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 21فیصد پرائمری سکولز ایسے ہیں جن کو صرف ایک استاد کی مدد سے چلایا جا رہا ہے اور 14فیصد ایسے ہیں جو صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔ 40فیصد ایسے سکولز ہیں جہاں بجلی نہیں ہے، 29فیصد سکولوں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں، 43 فیصد اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور 7 فیصد اسکول ایسے ہیں جن کے پاس اسکول کے لیے کوئی عمارت ہی نہیں۔

ماہرینِ تعلیم کے مطابق پاکستان میں شرحِ خوانداگی کا 58 فیصد ہونا ملک کی معاشی ترقی کے حصول کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں تعلیمی شعبے کی صورتِ حال غیر تسلی بخش رہی ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو کروڑ 20 لاکھ بچے اب بھی اسکول نہیں جاتے۔

2017 کے حکومت کے عہدیدار کہتے رہے ہیں کہ اس دورِ حکومت میں تعلیم کے بجٹ میں بتدریج اضافہ کرتے ہوئے اسے چار فی صد تک لے جایا جائے گا، لیکن اب تک ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 الف کے تحت ریاست پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم دینے کی پابند ہے۔

شہری علاقوں میں شرحِ خواندگی 74 فیصد جب کہ دیہی علاقوں میں 49 فیصد ہے۔واضح رہے کہ 2007ء اور 2008ء میں بھی سرکاری طور پر بتائی گئی شرحِ خواندگی 58 فیصد ہی تھی۔ حالیہ برسوں میں دو مرتبہ یہ شرح 60 فیصد تک پہنچی لیکن پھر نیچے آ گئی۔

تدریسی طریقہ کار:

نصاب کے بنیادی عناصر میں سے ایک اہم عنصر طریقہ تدریس بھی ہے۔ اساتذہ کرام کے لئے لازمی ہے کہ وہ روایتی طریقوں کے ساتھ ساتھ جدید ترین طریقہ تدریس کو بھی اپنائیں اور موقع کی مناسبت سے اپنی تدریسی حکمت عملی کو بروئے کار لائیں۔ پاکستان میں آج  بھی پرانے اور روایتی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پرانی نصابی کتابیں اب تک ہمارے نصاب کا حصہ ہیں۔ تعلیم ایک واحد ذریعہ ہے جس کی مدد سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر بنا سکتے ہیں تعلیم کی مدد سے غربت کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

تعلیم ایک ایسا عمل ہے، جس کے ذریعے سے ایک فرد اور ایک قوم خود آگہی حاصل کرتی ہے، اور یہ عمل اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے احساس و شعور کو نکھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ نئی نسل کی وہ تعلیم و تربیت ہے جو اسے زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتی اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتی ہے۔ تعلیم ہی سے ایک قوم اپنے ثقافتی، ذہنی اور فکری ورثے کو آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے اور اُن میں زندگی کے اُن مقاصد سے لگائو پیدا کرتی ہے۔

مشکلات کا حل :

حکومت کو یہ اقدام تو قابل احسن ہے جس میں انہوں نے پرائمری تک تعلیم مفت فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جس کے تحت حکومت پرائمری سطح تک بچوں کو مفت کتابیں فراہم کرتی ہے اور فیس بھی معاف ہے۔ حکومت کا کام صرف امداد فراہم کرنا نہیں بلکہ اس پر عملداری بھی ضروری ہے۔ حکومت ایسی شرائط و ضوابط لاگو کروائے جس کے تحت اس بات کا خیال رکھا جائے کے بچوں کو پرائمری تک تعلیم مفت فراہم کی جارہی ہے۔

سرکاری فنڈز ہونے کے باوجود تعلیمی عمارات پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ آج بھی کئی پسماندہ علاقوں میں بچے کلاس رومز کی بجائے کھلے میدانوں میں کلاسز لینے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف ہمارا تعلیمی نظام بہت خراب ہے دوسری طرف قابل اساتذہ کی بے حد کمی ہے۔ اساتذہ بچوں کو فرض سمجھ کر نہیں بلکہ قرض سمجھ کر پڑھاتے ہیں ۔ اساتذہ بچوں کی ذہنی نشوؤنما کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے تعلیمی نظام میں موجود خرابیاں آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بھی دائوپر لگا سکتی ہیں۔

حکومت چند تجاویز پر عمل کر کے ملک کے تعلیمی معیار کو بہتر بنا سکتی ہے۔ جن میں تعلیم کی فراہمی کیساتھ ساتھ گاؤں اور پسماندہ علاقوں میں تعلیمی ماحول کو بہتر بنایا جائے۔ لڑکیوں کو یکساں تعلیمی ماحول مہیا کیا جائے تاکہ تعلیم حاصل کر کے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ پسماندہ علاقے جہاں تعلیم کا نظام ناقص ہے وہاں قابل اساتذہ کو بھیجا جائے اور ان کی نگرانی بھی کی جائے۔ اساتذہ کی سالانہ کارکردگی کو بھی چیک کیا جائے اور اچھا رزلٹ دینے والے اساتذہ کو انعامات دیئے جائیں جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ طلباء کیلئے الیکٹرانک کلاسز کا بھی انتظام کیا جائے تاکہ طلباء جدید ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ حاصل کرسکیں۔

 

 

 

install suchtv android app on google app store