جج ارشد ملک ویڈیو کیس: سپریم کورٹ کی ایف آئی اے کو تین ہفتوں میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت

  • اپ ڈیٹ:
سپریم کورٹ کی ایف آئی اے کو تین ہفتوں میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت فائل فوٹو سپریم کورٹ کی ایف آئی اے کو تین ہفتوں میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت

جج مبینہ ویڈیو اسکینڈل کیس میں سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو تین ہفتے میں انکوائری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی ہے۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جج ارشد ملک مبینہ ویڈیو کیس کی سماعت کی،دوران سماعت اٹارنی جنرل منصورخان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواستوں میں جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی گئی ہے،ایک استدعا جج ارشد ملک کیخلاف کارروائی کی بھی ہے ،تمام حقائق عدالت کے سامنے آچکے ہیں ،جج ارشد ملک بیان حلفی بھی جمع کرا چکے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر چکی ہے، الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی دفعہ 20 کے تحت قید اور لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے، ایف آئی آر کے بعد ملزم طارق محمود کو گرفتار کیا گیا ہے، میاں طارق سے لینڈ کروزر برآمد ہوئی ہے، میاں طارق نے لینڈ کروزر ان سے وصول کی جن کو جج کی ویڈیو فراہم کی تھی جب کہ میاں طارق کے پاس جج ارشد ملک کی کافی ویڈیوز موجود ہیں، تحقیقات جاری ہیں ایف آئی اے ملزمان تک پہنچ رہی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ویڈیو سے جج کے موقف کا ایک حصہ درست ثابت ہوگیا، ویڈیو میں ایسا کیا ہے ہم نہیں جانتے، ایک ویڈیو کی تصدیق کروائی گئی ہے، جج نے ایسی حرکت کی تھی تب ہی وہ بلیک میل ہوا تاہم بطور جج ارشد ملک کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، ایک ویڈیو وہ بھی ہے جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیو اور ویڈیو کی ریکارڈنگ الگ الگ کی گئی تھی جب کہ پریس کانفرنس میں آڈیو اور ویڈیو کو جوڑ کر دکھایا گیا، آڈیو ویڈیو مکس کرنے کا مطب ہے اصل مواد نہیں دکھایا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریس کانفرنس والی اصل ویڈیو کو ریکور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ یہاں ایک آپشن آپ نے ایف آئی اے اور دوسرا نیب قانون کا دیا ہے، تیسرا آپشن تعزیرات پاکستان اور چوتھا پیمرا قانون کا دیا ہے، پانچواں آپشن حکومتی کمیشن اور چھٹا جوڈیشل کمیشن کا ہے جب کہ آخری آپشن یہ ہے کہ عدالت خود فیصلہ کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی کمیشن یا پیمرا احتساب عدالت کا فیصلہ نہیں ختم کر سکتا، شواہد کا جائزہ لیکر ہائی کورٹ ہی نواز شریف کو ریلیف دے سکتی ہے، جوڈیشل کمیشن صرف رائے دے سکتا ہے فیصلہ نہیں، کیا سپریم کورٹ کی مداخلت کا فائدہ ہو گا یا صرف خبریں بنیں گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کیا جج کا سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جانا درست ہے، کیا مجرم کے رشتے داروں اور دوستوں سے گھر اور حرم شریف میں ملنا درست ہے، فکر نہ کریں جج کے کنڈکٹ پر خود فیصلہ کریں گے، کسی کے کہنے پر ایکشن نہیں لیں گے، وزیر اعظم نے بھی کہا عدلیہ از خود نوٹس لے، کچھ کرنا ہوا تو دیکھ اور سوچ سمجھ کر کریں گے۔

install suchtv android app on google app store